اگر کائنات پر غور وفکر کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ پر ایمان اور آخرت پر ایقان حاصل نہ ہوبلکہ دنیا میں انسان ایسا مست ہو کہ اللہ کی توحید سے نابلد اور آخرت کی یاد سے غافل ہو جائے تو ایسا تصرف فی الارض انسان کو جنت سے دور اور جہنم سے قریب کر دیتا ہے، جبکہ جدید سائنس کے نزدیک اگر غور وفکر کے نتیجے میں تصرف فی الارض اور تمتع فی الارض میں اضافہ نہ ہو تو ایسا غور وفکر کسی کام کا نہیں ۔ آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ روزانہ دنیا کی ہزاروں یونیورسٹیوں سے تعلیم پانے والے سائنس کے لاکھوں طلبا جو تحقیق کرتے ہیں ،اُس کو پذیرائی اور قبولیت پانے یا نوبل انعام کا حق دار بننے کے لئے کوئی نہ کوئی ایسی نئی ایجاد ضروری قرار پاتی ہے جو جدید سائنس کے بنیادی مقصد ’تصرف فی الارض‘ میں اضافہ کا باعث بنے۔ ممکن ہے بعض لوگ یہ کہیں کہ کائنات میں غور وفکر کا اصل مقصد تو یقینا اللہ کی توحید اور آخرت کی یاد کو تازہ کرناہے، لیکن اضافی حیثیت میں اگر اشیائے کائنات سے استفادہ بھی ہو جائے تو اس میں کیا حرج ہے؟ تو ہم جواب میں عرض کریں گے کہ جس طرح قرآن مجید کے نزول کا اصل مقصد اور اُسے تلاوت کرنے کا اساسی مطلب ’ہدایت کی راہ‘ کا حصول ہے، تزکیۂ نفوس اور اطمینانِ قلوب کا حصول ہے، لیکن آیاتِ قرآن مجید پر تدبر سے بے شمار ضمنی اور اضافی فوائد اور معلومات کا خزینہ بھی حاصل ہو سکتا ہے۔ اب اگر کوئی شخص قرآنِ مجید تو بہت زیادہ تلاوت کرے، لیکن اس کایہ پڑھنا ’حلق سے نیچے نہ اُترے‘اسی طرح انسان ہدایت اور ایمان کی تلاش میں قرآن نہ پڑھتا ہوبلکہ نئی سے نئی معلومات کے حصول یا پڑھ پڑھ کے لوگوں پر دم کرنے اور اُن سے مال کمانے کا کام لیتا رہے تو قرآنِ مجید سے ہدایت و ایمان تو نہ ملے گا، البتہ اضافی فائدے ضرورحاصل ہو جائیں گے جو کہ صرف اور صرف خسارے کا سودا ہے اور جہنم کا راستہ ۔ لیکن اگر اصل مقصد ایمان وہدایت قرآن سے حاصل کرے اور پھراگر بعض جائز اور اضافی فوائد بھی حاصل کرلے تو اس میں حرج کی بات نہ ہوگی۔ بعینہٖ اگر کوئی شخص کائنات پر غور وفکر کا اصل مقصد اللہ تعالیٰ پر ایمان اور آخرت کی زندگی پر ایمان بناتا ہے اور پھر اس غور وفکر سے بعض اضافی فوائد بھی حاصل کر لیتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہ ہوگا، اگر سرے سے بنیادی مقصد ہی بدل جائے تو کائنات پر غور وفکر کا عنوان مشترکہ |