Maktaba Wahhabi

57 - 79
میں پیدا ہوتی ہے۔ عام طور پر سائنس کی کتابوں میں Creatureکی بجائے Nature کا لفظ استعمال کرنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یا تو یہ کائنات قدیم ہے، اَزلی وابدی ہے اور الگ سے اس کا کوئی خالق ہے ہی نہیں یا پھر سائنس دانوں کا نقطہ نظر یہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی خالق تھا بھی، تو یا تو (نعوذ باﷲ) وہ باقی نہیں رہا اور اگرموجود بھی ہے تو وہ کائنات کے نظم ونسق سے لاتعلق ہے اور اَب یہ کائنات اپنے ہی زور پر چلے جا رہی ہے۔ اسی طرح سائنس میں کائنات پر غور وفکر کا مقصد آخرت کی یاد کو تازہ کرنا اور پھر جہنم سے نجات اور جنت کی چاہت پیدا کرنے کے لئے نہیں بلکہ کائنات پر انسانی قبضہ و کنٹرول کو ممکن بنانے کے لئے ہوتا ہے۔ تسخیر کائنات اور پھر تصرف فی الارض اور تمتع فی الارض کو زیادہ سے زیادہ ممکن بنانا اور اسی کو بطورِ انسانی مقصد ِحیات کے قبول کرنا ہے۔ یوں قرآنی انداز ِتدبر اگر انسان کو مخلوق کی محتاجی اور خالق کی ’صمدیت‘ پر ایمان میں مدد دیتا ہے اور تخلیق اوّل سے تخلیق ثانی کا ثبوت دیکر آخرت کی فکر کو تازہ رکھتا ہے تو سائنسی انداز ِغور وفکر ایمان باللہ اورآخرت کی یاد سے غافل کرکے دنیا پر انسانی حاکمیّت اور اسے مادہ پرستی میں مست کر دیتا ہے۔ کائنات پر غور وفکر میں قرآن کا منہج یعنی غور وفکر سے خالقِ کائنات کے وجود اور عظمت کی نشاندہی اور بعث بعد الموت کی تذکیر جو کہ تمام انبیاء ورسل علیہم الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کے دو بنیادی مقاصد رہے ہیں ، جدید سائنس کے منہج غور وفکر سے بالکل مختلف نتائج کا حامل ہے اسی لیے دونوں علمیتوں کے ہاں اپنے اپنے منہاج کی اہمیت اس قدر زیادہ اور لازمی ہے کہ اگر منہاج تبدیل ہو تو نتائج بھی مختلف بلکہ متضاد حاصل ہوتے ہیں ۔ اس لئے اسلام اور سائنس دونوں اپنے مطلوبہ مقاصد حاصل نہ ہونے پر اپنے ماننے والوں کے غور وفکر کو فضول، بے فائدہ، وقت، دولت اور صلاحیت کا ضیاع سمجھیں گے۔ جس طرح عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا نہ مانا جائے اوران کے صلیب چڑھ کے عیسائیوں کے لئے کفارہ بننے کا عقیدہ تسلیم نہ کیا جائے تو عیسائیوں کے نزدیک عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے کا دعویٰ ہی سرے سے غلط ہوگا جبکہ مسلمانوں کے نزدیک عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بندہ اور رسول ماننے کے سوا اگر عیسائیوں والے عقائد بھی رکھے جائیں تو شرک اور کفر لازم آئے گا۔ بالکل اسی طرح
Flag Counter