کائنات پر غور وفکر؛ اسلامی اورالحادی مقاصد میں فرق بدقسمتی سے ہمارے ہاں زندگی کے باقی شعبوں کی طرح ’علمیت‘ بھی ’جاہلیت ِجدیدہ‘ سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔ کئی لوگوں نے قرآنِ مجید میں ’علم‘ کی اہمیت وفضیلت کی آیات کو نیچرل سائنس اور سوشل سائنس پر منطبق کردیا اور بہت سے لوگ خاص اس موضوع یعنی ’قرآن مجید میں تخلیق ِارض و سماوات پر غور وفکر‘ کو جدید سائنس کا ہم مقصد سمجھنے لگے کہ جدید سائنس بھی کائنات پر غور وفکر اور تدبر کے دروازے کھولتی ہیں ۔ عنوان تو بے شک یہ ’ایک جیسا‘ یا ’ملتا جلتا‘ ہی ہے، لیکن حقیقت میں یہاں کتنا بڑا اختلاف اور تضاد موجود ہے۔ اس کے لیے ایک مثال پر غور کیجئے: ایک عیسائی اور مسلمان دونوں حضرت عیسیٰ علیہ الصلٰوۃ والسلام کو ماننے اورایمان رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں ، لیکن دونوں ہی ایک دوسرے کے ایمان کو معتبر نہیں جانتے کیونکہ ایک ہی عنوان یعنی ’عیسیٰ پر ایمان رکھنا‘کے باوجود ’ایمان‘ کا مطلب بھی مختلف ہے اور مقصد بھی۔ عیسائیوں کے ہاں عیسیٰ علیہ الصلٰوۃ والسلام پر ایمان لانے کا مطلب اُنہیں اللہ کا بیٹا ماننا یا تثلیث کا عقیدہ رکھنا ہے جبکہ مسلمان اس عقیدہ کے حامل کو ’مؤمن‘ کی بجائے ’کافر‘ اور موحد کی بجائے مشرک سمجھتے ہیں اور عیسیٰ علیہ الصلٰوۃ والسلام پر ایمان لانے کا مطلب مسلمانوں کے ہاں ، اُنہیں اللہ کا بندہ اور رسول ماننا ہے اور ان کی طرف سے دی جانیوالی آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی خوشخبری پر یقین رکھنا ہے۔ اس مثال کو سامنے رکھتے ہوئے قرآنِ مجید اور جدید سائنس کے ’کائنات پر غور وفکر‘ کے مشترکہ عنوان کو سمجھا جا سکتا ہے۔ قرآنِ مجید ارض و سماوات پر غور وفکر کی طرف اس مقصد کے لئے عقلوں اور اَذہان کو متوجہ کرتا ہے تاکہ اَوّلاً ’مخلوق‘ پر تدبر سے خالق پر ایمان ویقین پیدا ہو اور اگر موجود ہے تو مضبوط و مستحکم ہواورثانیاً تخلیقِ اول سے تخلیق ثانی پر اعتماد پیدا ہو اور آخرت کا وقوع اور بعث بعد الموت کی حقیقت کو سمجھنا قریب الفہم اور آسان ہو جائے۔ جب کہ سائنس دانوں کا عالم یہ ہے کہ وہ بالعموم ’کائنات‘ پر غور وفکر کرتے ہوئے ’مخلوق‘ (Creature)کا لفظ تک استعمال کرنے سے گریزاں رہتے ہیں ،کیونکہ اس لفظ ہی سے کسی خالق کا تصور ذہن میں زندہ ہوتا ہے اور پھر خالقِ کائنات کی معرفت و پہچان کی چاہت دِلوں |