ثانیاً جہاں جہاں سائنسی علمیت (نیچرل اور سوشل سائنس) کا غلبہ ہوتا چلا جاتا ہے، وہاں انسانی انفرادیت، معاشرت اور ریاست، وحی بیزار عقلیت اور مذہب دشمن جذباتیت سے بھرتے چلے جاتے ہیں ۔ اس لئے کہ ہر منزل تک پہنچنے کے لئے الگ خاص راستہ ہوتا ہے اور ہر مقصد حاصل کرنے کے لئے اپنا وسیلہ اور ذریعہ ہوتا ہے۔ اللہ تک پہنچنے کا راستہ انبیاء بتاتے ہیں اور وہ توحید و بندگی اور سنت و اعمالِ صالحہ کا وسیلہ و ذریعہ ہے، نیز مؤمنانہ بصارت و موحدانہ بصیرت سے کائنات پر غور وفکر، اس مقصد کے حصول میں معاون ہوتا ہے جبکہ سائنس ایک ایسا ذریعہ اور وسیلہ ہے جو خود انسان کو آقاے کائنات(Master of the Universe) بنانے کے لئے تراشا گیا ہے اور اس کے لئے انبیاء ورسل علیہم الصلوٰۃ والسلام نیز توحید و بندگی اور سنت واعمالِ صالحہ کی کوئی اہمیت اس ذریعہ میں باقی نہیں رہتی اور سائنس میں ترقی کا مقصد خواہشاتِ نفس کو پورا کرنے کی سعی کرنا ہے، نہ کہ احکام الٰہی کی بجا آوری میں محنت کرنا۔ اللہ تعالیٰ ہم مسلمانوں کو سوچنے، سمجھنے اور حق کے مطابق عمل کرنے کی توفیق دے! ……………… اِعتذار: شمارہ جولائی ۲۰۱۰ء میں ص ۶۷ پر مضمون ’برصغیر میں اوّلین معمارِ کلیسا کون؟؛ایک جائزہ‘ میں کلیسیا کی جگہ کلیسا سہواً چھپ چکا ہے۔کلیسا سے مراد گرجا ہے جب کہ کلیسیا سے مراد اہل کلیسا کی تنظیم ہے۔مصنف کی مراد یہاں کلیسیا (اہل کلیسا کی تنظیم )تھی نہ کہ کلیسا۔لہٰذا پورے مضمون میں کلیسا کی جگہ کلیسیا ہی پڑھا جائے۔ اسی طرح مذکورہ مضمون کے ص ۷۳ اور ۷۵ پر لفظ ’اڑیسہ ‘کی جگہ ’اڈیسہ‘ پڑھا جائے۔ (شکریہ) |