’’اس نے انسان کو بجنے والی مٹی سے پیدا کیا جو ٹھیکری کی طرح تھی۔اور جنات کو آگ کے شعلے سے پیداکیا ۔‘‘(الرحمن :۱۴،۱۵) قرآن وحدیث سے تخلیقِ ارض و سماوات اور تخلیقِ آدم علیہ السلام کی یہ مختصر روداد آپ نے پڑھی ہے۔قرآنِ مجید کائنات کی تخلیق کا مختصر حال سناتا ہے، لیکن پھر بہت سی آیات ِمبارکہ میں تخلیقِ ارض وسماوات اور تخلیق آدم و انسان پر مسلسل غور وفکر کی دعوت دیتا ہے۔ بار بار انسانی عقلوں کو زمین وآسمان، سورج،چانداور ستاروں ،پہاڑو سمندر، شجر وحجراور حیوانات وانسان کی حیرت انگیز تخلیق کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ قرآنِ مجید کی آیات کا تتبّع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ عقلِ انسانی کو تخلیق اَرض وسماوات کی طرف غور وفکر کی دعوت دینے کے دو بنیادی مقاصد ہیں : 1. مخلوق اور محتاج کائنات کے وجود سے خالق و مالک اور ربِ عظیم کے وجود، ذات وصفات اور عظمت وشان کی طرف انسانیت کو متوجہ ونشاندہی کرے۔ 2. دوسرا بنیادی مقصد تخلیقِ اوّل سے تخلیقِ ثانی کا اثبات یعنی انبیا کی دعوت کا دوسرا اساسی مقصدبعثت بعد الموت اور آخرت کا اثبات ہے۔ آئیے!قرآنِ مجید کی بعض آیات پڑھتے ہیں : 1.وہ آیات جو مخلوق پر غور وفکر سے خالق کے وجود اور عظمت پر دلالت کرتی ہیں : ﴿نَحْنُ خَلَقْنَاکُمْ فَلَوْلَا تُصَدِّقُونَ. أَفَرَأَیْتُم مَّا تُمْنُونَ. أَأَنتُمْ تَخْلُقُونَہُ أَمْ نَحْنُ الْخَالِقُونَ﴾ (الواقعہ:۵۷۔۵۹) ’’ہم ہی نے تم سب کو پیدا کیا ہے پھر تم کیوں باور نہیں کرتے۔اچھاپھر یہ بتلاؤکہ جو منی تم ٹپکاتے ہو۔ کیا اس کا (انسان)تم بناتے ہو یا پیدا کرنے والے ہم ہی ہیں ۔ ‘‘ ﴿أَفَرَأَیْتُمْ مَّا تَحْرُثُونَ. أَأَنتُمْ تَزْرَعُونَہُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ. لَوْ نَشَاء لَجَعَلْنَاہُ حُطَاماً فَظَلْتُمْ تَفَکَّہُونَ﴾ (الواقعہ:۶۳۔۶۵) ’’اچھاپھریہ بھی بتلاؤ کہ تم جو کچھ بوتے ہو،اسے تم ہی اُگاتے ہو یا ہم اُگانے والے ہیں ۔ اگر ہم چاہیں تو اسے ریزہ ریزہ کر ڈالیں اور تم حیرت کے ساتھ باتیں بناتے رہ جاؤ۔‘‘ ﴿أَفَرَأَیْتُمُ الْمَاء الَّذِیْ تَشْرَبُونَ أَأَنتُمْ أَنزَلْتُمُوہُ مِنَ الْمُزْنِ أَمْ نَحْنُ الْمُنزِلُونَ لَوْنَشَاء جَعَلْنَاہُ أُجَاجاً فَلَوْلَا تَشْکُرُونَ ﴾(الواقعہ: ۶۸۔۷۰) |