Maktaba Wahhabi

43 - 79
ورّثوا العلم،فمن أخذہ أخذ بحظ وافر)) ( سنن ابوداؤد:۳۶۸۲) ’’علمائ، انبیاء کے وارث ہوتے ہیں اور انبیا کسی درہم و دینار کے وارث نہیں بناتے، وہ تو بس علم کا وارث بناتے ہیں جس نے یہ علم حاصل کرلیا اس نے بھرپور حصہ پایا۔‘‘ اور صحیح مسلم کی روایت میں ہے : ((من بطأ بہ عملہ لیس یسرح بہ نسبہ)) (رقم الحدیث:۲۶۹۹) ’’ جس کا علم اسے پیچھے رکھے اس کا نسب اسے آگے نہیں بڑھا سکتا۔‘‘ علماے حق کا بے مثل اعزاز وراثت کے متعلق معلوم و معروف ہے کہ یہ ہمیشہ قرابت قریبہ ہی کے تحت ملتی ہے۔ انسان کاخواہ کوئی کتنا ہی عزیز اور محبوب ہو مگر ان میں رشتہ داری کا تعلق کا نہ ہو تو اس دوست کو وارث نہیں بنایا جاسکتا۔چنانچہ علما کے لیے یہ عظیم ترین اعزاز ہے جو اُمت کے کسی اور طبقہ کے حصے میں نہیں آیا کہ انہیں انبیا کا وارث قرار دیا گیا ہے۔قطع نظر اس سے کہ ان کی قوم برادری کیا ہو،رنگ و روپ کیسا ہو، قدوقامت اور مال و منصب کیا ہو،نبی کا وارث محض اور محض وہی ہوگا جو صاحب علم ہوگا یعنی شریعت الٰہیہ کا عالم جو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش کی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے حین حیات اپنی قوم قبیلے کے ان اَفراد سے علی الاعلان لاتعلقی کا اظہارفرما دیا تھا جو ایمان و عمل صالح سے خالی تھے فرمایا: ((إنَّ آل أبی فلان لیسوا بأولیائي إنما ولي اﷲ وصالح المؤمنین)) ’’ آل ابی فلاں میرے کوئی ولی (وارث) نہیں ہیں ۔میرے ولی اور وارث تو اللہ عزوجل کے بعد صالح ایمان دار ہیں ۔‘‘ (صحیح بخاری:۵۹۹۰) علماے حق کا فرض منصبی اس لیے علماے اُمت اور طلبۂ شریعت الٰہیہ کا فرض ہے کہ اپنی اس نسبت کی رعایت سے اپنا مقام و منصب ہمیشہ پیش نگاہ رکھیں ۔ تقویٰ واخلاص میں گہرائی پیدا کرنے میں محنت کریں اور اپنے تمام تر مشاغل میں سے علم قرآن و سنت کو اوّلین ترجیح دیں اور اس کی اشاعت میں کسی قسم کی کمزوری اور کسل مندی کو راہ نہ دیں اور اللہ کا شکر کرتے ہوئے اس دولت کو اپنے لیے وجہ افتخار جانیں اور عین ممکن ہے کہ علماے حق کوبھی اپنے مورثین کی سنت میں جہلا کی
Flag Counter