طرف سے کچھ مشکلات کا سامنا کرنے پڑے وہ مشکلات اقتصادی، معاشی، سیاسی اور سماجی ہر طرح کی ہوسکتی ہیں ۔طعن و تشنیع اور سچے جھوٹے الزامات بھی ہوسکتے ہیں اور ممکنہ رکاوٹیں بھی۔مگر یقین رکھنا چاہیے کہ جیسے اللہ عزوجل نے اپنے انبیا کو ﴿فَبَرَّاَھُ اﷲُ مِمَّا قَالُوْا﴾ ’’اللہ نے (جناب موسیٰ علیہ السلام کو) لوگوں کی کہی باتوں سے بری فرمایا۔‘‘ کا قرار دیا ہے تو عین اس طرح، ان وارثوں کے لیے بھی جلد یا بدیر یہ عہدوقرار ثابت ہوکر رہے گا۔ان مشکلات اور رکاوٹوں کا اِزالہ ہوکر رہے گااور جیسے اپنے پیارے مو سیٰ علیہ السلام کے لیے فرمایاہے کہ﴿وَکَانَ عِنْدَ اﷲِ وَجِیْھًا﴾’’وہ اپنے اللہ کے ہاں بڑے ہی معزز تھے‘‘ تو اس طرح نبی کے وارث بھی بڑے معزز و محترم ہیں بشرطیکہ اس اعزاز کی شرائط پر پورے اترتے ہوں ۔ ﴿وَﷲِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُوْلِہٖ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ﴾ (المنافقون:۸) ’’اور عزت توبس اللہ کے لیے، اس کے رسول کے لیے اور اہل ایمان کے لیے ہے۔‘‘ اور یہ عزت شہادت ِ توحید و رسالت اور اعمال صالحہ کی عزت ہے اور ان کے بالمقابل اگر کوئی شرک و بدعت سے آلودہ ہو اور حکومت و فرماں روائی یا کچھ روپے پیسے کی گنتی میں بڑھا ہوا ہوتو یہ اللہ کے ہاں عز و شرف کا کوئی معیارنہیں ہے۔ ﴿وَمَا أمْوَالُکُمْ وَلَا أوْلَادُکُمْ بِالَّتِیْ تُقَرِّبُکُمْ عِنْدَنَا زُلْفٰی، إلَّا مَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا…﴾ ’’تمہارے مال اور اولاد کوئی ایسی چیزیں نہیں ہیں کہ تمہیں ہمارے ہاں (مرتبوں سے) قریب کردیں ، مگر جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں ۔‘‘(سبا:۳۷) اَئمہ و محدثین میں ہمیں امام مالک،۱مام شافعی، امام احمد بن حنبل، امام بخاری، یحییٰ بن معین، یحییٰ القطان رحمہم اللہ اور دیگربے شمار بزرگ نظر آتے ہیں کہ ان حضرات نے فقروفاقہ کو خاطر میں لائے بغیر علم دین حاصل کیا۔اس کی حفاظت کی اور اس کی اشاعت میں کسی حاکم اور حکومت کے زیراِحسان نہیں ہوئے تو اللہ عزوجل نے ان کو ایسی ’وجاہت‘ عنایت فرمائی ہے جو اَصحاب مال و منال اور صاحبان تخت کو حاصل نہیں ہوئی۔ چنانچہ ان کاکلمہ بلند اور ان کاتذکرہ محفوظ ہے اور دوسرے دور کہیں تاریخ کی تہوں میں مدفون ہیں ۔اور کفر و کفار آج بھی ان بوریا نشینوں کے وارثوں سے لرزہ براَندام ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت فرمائے اور انہیں مزیدخدمت دین کی توفیق عنایت فرمائے۔ آمین |