قبولِ اسلام سے مشرف ہوگیا اور اس خاتون نے برملا اعتراف کیا: ’’ یا رسول اﷲ! ما کان علی ظھر الأرض أھل خباء أحب إلیّ أن یذلّوا من أھل خباء ک ثم ما أصبح الیوم علی ظھر الأرض أھل خباء أحب إليّ أن یعزوا من أھل خباء ک) (صحیح بخاری:۳۸۲۵) ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ساری زمین پر جتنے بھی ڈیرے اور خیموں والے ہیں ان میں سے کسی کاذلیل و خوار ہونا مجھے اتنا پسند نہیں تھا جتناکہ آپ کا اور آج برسرزمین کوئی ڈیرے اور خیمے والے ایسے نہیں کہ ان کا عزت و آبرو والا ہونا آپ سے بڑھ کر مجھے محبوب ہو۔‘‘ اور یہ تفسیر تھی مذکورہ بالا آیت کریمہ کی کہ:﴿فَبَرَّاَھُ اﷲُ مِمَّا قَالُوْا…﴾’’اللہ نے اپنے نبی کو ان لوگوں کی کہی باتوں سے بری قرار دیا۔‘‘ 3. اس سے واضح تر بیان جناب ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ کا ہے۔ یہ علاقہ یمامہ کے رئیس تھے اور اسلام و مسلمان کے بڑے دشمنوں میں سے تھے۔ اللہ کاکرنا یہ ہوا کہ مسلمانوں کے ہاتھوں قید ہوگئے اور پھر انہیں مدینہ منورہ لاکر مسجد میں ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا گیا۔ اس دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موقعہ بہ موقعہ ان سے مزاج پرسی کرتے رہے، مگر ان کی تلخی اپنی انتہا پر تھی، یہ جواب دیتے تھے کہ ’’إن تقتُلْنی تقتُلْ ذا دمٍ وإن تُنعم تُنعم علیٰ شاکر وإن کنتَ تریدُ المال فسل منہ ما شئت‘‘ (صحیح بخاری :۴۳۷۲) ’’اگر مجھے قتل کرو گے تو ایک خون والے کو قتل کرو گے (یعنی میری قوم پورا پورا قصاص لے گی) اگر احسان کرو گے تو ایک شکرگزار پراحسان کرو گے (یعنی احسان مند رہوں گا) اور اگر آپ مال چاہتے ہیں تو کہیے… جو چاہتے ہیں دے دیا جائے گا۔‘‘ مگر تیسرے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پراحسان کرتے ہوئے انہیں آزاد کردیا تو انہوں نے قریب کے باغ میں جاکر غسل کیا اور پھر مسجد میں لوٹ آئے اور کلمۂ شہادت پڑھ کر حلقۂ اسلام میں داخل ہوگئے۔ اس موقع پر جو کچھ انہوں نے کہا وہ ایک آزاد، مخلص اور صاف دل انسان کا بیان تھا اور اللہ عزوجل کے اسی عہد کا اِظہار تھا کہ وہ اپنے انبیا کو لوگوں کے طعن و تشنیع اور اِلزامات سے |