Maktaba Wahhabi

40 - 79
1. سیدنا یوسف علیہ السلام کا قصّہ اکثر لوگ جانتے ہیں ۔ آپ کے بھائیوں نے ابتدا میں آپ کے ساتھ جو سلوک کیامعلوم و معروف ہے۔ سو ایک وقت آیا کہ ان برادران کو اپنے کئے پر بڑی شرمندگی اُٹھانا پڑی اور اپنی زبان سے اقرار و اعتراف کرنا پڑا کہ ﴿تَاﷲِ لَقَدْ اٰثَرَکَ اﷲُ عَلَیْنَا وَإنْ کُنَّا لَخَاطِئِیْنَ﴾ (یوسف:۹۱) ’’اللہ کی قسم! اللہ نے آپ کو ہم پر برتری دی ہے اور یقیناً ہم خطاکار تھے۔‘‘ ﴿قَالُوْا یَا أبَانَا اسْتَغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا إنَّا کُنَّا خَاطِئِیْنَ﴾ (یوسف:۹۷) ’’ابا جان، ہمارے لیے گناہوں کی بخشش طلب کیجئے، بیشک ہم قصور وار ہیں۔‘‘ ﴿وَرَفَعَ أبَوَیْہِ عَلَی الْعَرْشِ وَخَرُّوْا لَہٗ سُجَّدًا﴾ (یوسف:۱۰۰) ’’انہوں نے اپنے ماں باپ کو اپنے تخت پر اونچا بٹھایا اور پھر وہ سب اس کے سامنے سجدہ ریز ہوگئے۔‘‘ 2.سیدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اپنی قوم کی طرف سے بدترین اذیتوں اور مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔مگر وہی زبانیں جو آپ کے خلاف طعن وتشنیع میں دراز ہوتی رہی تھیں ۔ ایک وقت کے بعد اپنی بھول اور خطا کااعتراف کرنے پر مجبور ہوگئیں ۔مثلاًابوسفیان اور ان کی بیوی ہندبنت عتبہ اسلام سے قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سخت ترین دشمنوں میں سے تھے۔مگر اللہ کی تقدیر اور اس کے فیصلے بڑے عجیب ہیں کہ یہی گھرانہ فتح مکہ کے موقع پر
Flag Counter