کے ہاں وجاہت حاصل تھی۔ بلا شبہ انہیں یہ فضائل ایک حد تک حاصل رہے ہیں ۔ مگر ان کی حقیقی قدر و منزلت محض ایمان و عمل اور تقویٰ کے ساتھ اس منصب کی وجہ سے تھی جس کا انہیں ذمہ دار بنایاگیا تھا۔ ﴿وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ أمَّۃٍ رَّسُوْلًا أنِ اعْبُدُوْا اﷲَ وَاجْتَنِبُوْا الطَّاغُوْتَ﴾ ’’ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا ہے کہ (لوگو!) عبادت صرف ایک اللہ کی کرو اور اس کے سوا تمام معبودوں سے بچے رہو۔‘‘(النحل:۳۶) چنانچہ ان قدوسی حضرات نے اپنی زندگی کے ہرہر مرحلے پر اپنے ذاتی ذوق و شوق یا قوم برادری کے رسم و ریت کے مقابلے میں ہمیشہ اللہ عزوجل کے قانون و شریعت پر عمل کیا اور اسی کی برملا دعوت دی۔ علیہم الصلاۃ والسلام اس ذمہ داری میں انہیں قوم برادری کی طرف سے بے انتہا اذیتوں اور مشکلات کاسامنا رہا ہے۔مگر انہوں نے صبروثبات اور استقامت کا وہ مظاہرہ فرمایا کہ آخرالامر مخالفین کو بری طرح ناکام ہونا پڑا اور پھر ان کے لگائے الزامات کا دفعیہ بڑے بڑے عجیب انداز میں کیا گیا اور ان کی تاریخ کو رہتی دنیا تک کے لیے بطورِ حجت محفوظ فرما دیا گیا ہے۔ مذکورۃ الصدر آیت کریمہ میں یہ مضمون بڑے اختصار اور جامعیت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ اس کاشانِ نزول اور اس سے متعلق واقعہ کتب تفاسیر و اَحادیث میں لائق مطالعہ ہے۔[1] اس بارے میں قرآن کریم اور تاریخ اسلام سے مزید چند واقعات قابل غور ہیں ، مثلاً : |