Maktaba Wahhabi

98 - 111
طور پر حلال نہیں کہا جاسکتا ،اور مسلمانوں کو ایسے کا روبار میں حصہ لینا درست نہیں ۔ (’فقہی مقالات‘:۲/۲۶۴ طبع میمن پبلشرز) اس فتویٰ کی رو سے یہ معلوم ہوا کہ ایسے معاملات کو جواز کے محدود عنصر پر مشتمل ہونے کے باوجود جائز کہنے یا جائز بتانے اور معمول بنانے کی گنجائش شرعاً نہیں ہوا کرتی، اور مسلمانوں کے لئے ایسے معاملات میں حصہ لینا جائز نہیں ہوتا مگر مروّجہ اسلامی بینکوں کے معاملات کو اس کے باوجود جائز کہا اور جتلایا جاتا ہے۔ ٭ حاصل یہ کہ مروّجہ اسلامی بینکاری کے جو تخیلاتی خاکے اسلامی بینکنگ کے مجوزین علماے کرام نے وضع کئے ہیں ، وہ خاکے بھی خلافِ شرع ہیں ۔ ان خاکوں میں اسلامی رنگ کی بجائے روایتی بینکاری کا رنگ ہی نمایاں ہے، اوران خاکوں میں کئی شرعی نقائص بھی پائے جاتے ہیں ، اس پر مستزاد یہ کہ ہمارے ان بینکوں کا عملی طریقہ کار ان فرضی تخیلاتی خاکوں کے مطابق بھی نہیں ہے، اس لئے ان مروّجہ اسلامی بینکوں کو ’اسلامی بینک‘ کہنا بھی جائز نہیں ، کیونکہ زیادہ سے زیادہ مروّجہ اِجارہ و مرابحہ کے حیلوں کی وجہ سے انہیں ’حیلہ بینک‘ کہہ سکتے ہیں ، اور حیلہ الگ چیز ہے اور حقیقت ِاسلام الگ چیز ہے۔ چنانچہ انہی وجوہات کی بنا پر مروّجہ اسلامی بینکاری کی بابت ملک کے جمہور علماے کرام اور مفتیانِ کرام کا متفقہ فتویٰ یہ ہے : ’’گذشتہ چند سالوں سے بعض اسلامی شرعی اصطلاحات کے نام سے رائج ہونے والی بینکاری کے معاملات کا قرآن و سنت کی روشنی میں ایک عرصے سے جائزہ لیا جارہا تھا اور ان بینکوں کے کاغذات، فارم اور اُصولوں پر غور و خوض کے ساتھ ساتھ اکابر فقہا کی تحریروں سے بھی استفادہ کیا جاتا رہا۔ بالآخر اس سلسلے میں حتمی فیصلے کے لئے چاروں صوبوں کے علماے کرام کا ایک اجلاس مؤرخہ۲۸/اگست۲۰۰۸ء بمطابق ۲۵/شعبان المعظم ۱۴۲۹ھ بروز جمعرات حضرت شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خان دامت برکاتہم کے زیر صدارت جامعہ فاروقیہ کراچی میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں شریک مفتیانِ عظام نے متفقہ طورپر فتویٰ دیا کہ اسلام کی طرف منسوب مروّجہ بینکاری قطعی غیر شرعی اور غیر اسلامی ہے، لہٰذا ان بینکوں کے ساتھ اسلامی یا
Flag Counter