تحقیق وتنقید حافظ محمد زبیر پروفیسر خورشید عالم، علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ اور چہرے کا پردہ ماہنامہ ’اشراق‘ مارچ ۲۰۰۹ء کے شمارے میں پروفیسر خورشید صاحب کا مضمون’چہرے کا پردہ احادیث و آثار کی روشنی میں ‘ میں شائع ہوا۔ ایک زمانے میں جبکہ پروفیسر صاحب چہرے کے پردے کے موضوع پر ماہنامہ ’اشراق‘ میں لکھ رہے تھے، ہم نے اُنہیں یہ مشور ہ دیا تھاکہ اگر واقعتا وہ اس موضوع پر کوئی سنجیدہ اور علمی کام کرناچاہتے ہیں تو وہ علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ کی کتابوں : جلباب المرأۃ المسلمۃ اور الردّ المفحم کا ترجمہ کر دیں ۔ بہر حال اس موضوع پر ایک کتاب لکھنے کے بعد پروفیسر صاحب کو اس کا احساس پیدا ہو ہی گیاہے تویہ ایک خوش آئند بات ہے۔پروفیسر صاحب کے ’اشراق‘ میں شائع شدہ حالیہ مضمون میں علامہ البانی کی ان دوکتابوں میں بیان شدہ احادیث اور آثار کا ترجمہ اور تشریح شائع کی گئی ہے۔ پروفیسر صاحب حقیقت چھپانے میں ید ِطولیٰ رکھتے ہیں اور اپنے حالیہ مضمون میں اُنہوں نے علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ کے صحیح موقف پر پردہ ڈالنے کے لیے زبان و بیان کی تمام صلاحیتیں کھپا دی ہیں ۔ پروفیسر صاحب جب ماہنامہ’ اشراق‘ میں چہرے کے پردے پر مضامین لکھ رہے تھے یا بعد میں اُنہوں نے ان مضامین کو ایک کتابی شکل میں شائع کیا یا حال ہی میں اُ نہوں نے ایک نیا مضمون اس موضوع پر لکھا، ان کی اس ساری تحقیق کا مرکزو محور علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے دلائل ہیں ، لیکن مجال ہے کہ اپنے سلسلۂ مضامین یا کتاب یا اپنے حالیہ مضمون میں اُنہوں نے علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ کے موقف کو صحیح طور پر نقل کیا ہو۔ پروفیسر صاحب خود بھی اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ اُنہوں نے اس مسئلے میں علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ سے بہت زیادہ استفادہ کیاہے، لیکن علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ کے وہ دلائل تو دھڑا دھڑ نقل کر دیتے ہیں جو چہرے کے پردے کے عدم وجوب کے بارے میں ہیں جبکہ چہرے کے پردے کے |