حدیث وسنت پروفیسرمحمد مزمل احسن شیخ روشن خیال یا خوش حال پاکستان پرویز جب مشرف بہ حکم رانی ہوا کہ فضا سے زندہ اترا تھا تو بالکل حق کے اُس ضیاء کے برعکس جو فضا میں راہیٔ ملک بقا ہوا تھا، پاکستان کو روشن خیال بنانے کے لیے ہم پیالہ و نوالہ و خیالوں کواکٹھا کیا تو انہوں نے بے حیاؤں کی دوڑیں لگوا دیں یہ کہہ کر حیا والے آنکھیں اور گھروں کے در بند کرلیں یا بے حیاؤں کے ساتھ مل کر حکم رانوں کو راضی کرلیں ۔ چاہے عرش عظیم کا رب مالک الملک ناراض ہوجائے۔ ؎ بے حیا باش ہرچہ خواہی کن بسنت منا کر پالا اُڑنت ہوا یا نہ، حیا اُڑنت ہوگئی۔ گڈے اور گڈیاں اڑانے کے ساتھ ساتھ بھنگڑے ڈالنا، آوازے کسنا، فحش ریکارڈنگ، چھتوں پر زندہ گڑیوں کا برہنہ پن، اسلحہ کی نمائش اور فائرنگ،شراب کی محفلیں ، شوروغوغا اور نازیبا حرکات کرکے کفار اور شیاطین کو خوش کیا گیا۔ دو سال کے بعد آج پنجاب کے مسلمان گورنر (جس کا نام مدینہ کے گورنر سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے نام سے ملتا ہے، جسے سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل بیت سے قرار دیا تھا) کے نام کی تاثیر بھی بسنت سے مشرف ہوگئی۔محض اس لیے کہ عدلیہ کی بحالی سے ظلم کی تاریکی کے خاتمے کو برداشت کرنا ناممکن لگتا تھا۔روشن خیال پاکستان تو جشن بہاراں سے مرصع ہوتاہے، چاہے سینکڑوں معصوم بچوں کے لاشے تڑپیں ، معصوم بچوں کے باپوں کی گردنیں کٹ جائیں اور سینکڑوں سہاگ اجڑیں ، بچے یتیم ہوں ، ان کے خون کی سرخی سے ان کے چہرے روشن ہوں گے یا خیال؟ کیا حال ہوگا جب بدحال پاکستان کے یہ لاشے قیامت کے دن اللہ کے دربار میں کہہ رہے ہوں گے کہ ’’کس گناہ بے لذت کی پاداش میں تم نے ہمیں مارا اور مروایا؟‘‘ کیا یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کے بجائے بسنت کی پتنگوں اور اڑانے والے پتنگوں کے جھنڈے میں سیاہ رُو محروم شفاعت نہ ہوں گے؟ |