Maktaba Wahhabi

107 - 111
حدیث وسنت محمد رفیق چودھری جاوید غامدی اور انکارِ حدیث5. [کیاحدیث ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کی روشنی میں سمجھا جائے؟] جناب غامدی صاحب نت نئے طریقوں سے حدیث کی حجیت کا انکار کرتے ہیں : کبھی وہ حدیث اور سنت میں تفریق پیدا کرتے ہیں ۔ کبھی کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اُسوۂ حسنہ اور حدیث دو الگ الگ اور مختلف چیزیں ہیں ۔ کبھی فرماتے ہیں کہ حدیث سے دین کا کوئی عقیدہ، عمل اور حکم ثابت نہیں ہوتا۔ کبھی ارشاد ہوتا ہے کہ سنت، خبر واحد (اخبارِ آحاد) سے ثابت نہیں ہوسکتی اس کے لیے تواتر شرط ہے۔ اس طرح وہ مختلف حیلوں بہانوں سے حدیث کی اہمیت گھٹانے اور اسے دین اسلام سے خارج سمجھتے ہیں ۔ اس مضمون میں ہم اُن کے ایک اور نرالے اُصولِ حدیث کا علمی جائزہ لیں گے جس کو وہ فہم حدیث اور تدبر حدیث کے لیے ضروری قرار دیتے ہیں مگر اس سے اُن کا اصل مقصد اور مدعا بھی انکارِ حدیث ہے۔ اُن کا وہ نرالا اصولِ حدیث یہ ہے کہ ’’حدیث کو قرآن کی روشنی میں سمجھا جائے۔‘‘ چنانچہ وہ اپنی ڈنڈی مار کتاب ’میزان‘ میں تحریر فرماتے ہیں کہ ’’دوسری چیز یہ ہے کہ حدیث کو قرآن کی روشنی میں سمجھا جائے۔ دین میں قرآن کا جو مقام ہے، وہ ہم اس سے پہلے بیان کرچکے ہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیثیت ِنبوت و رسالت میں جو کچھ کیا، اس کی تاریخ کا حتمی اور قطعی ماخذ بھی قرآن ہی ہے۔ لہٰذا حدیث کے بیشتر مضامین کا تعلق اس سے وہی ہے جو کسی چیز کی فرع کا اُس کی اصل سے اور شرح کامتن سے ہوتا ہے۔ اصل اور متن کو دیکھے بغیر اس کی شرح اور فرع کو سمجھنا، ظاہر ہے کہ کسی طرح ممکن نہیں ہوتا۔ حدیث کو سمجھنے میں جو غلطیاں اب تک ہوئی ہیں ، ان کا اگر دقت ِ نظر سے جائز لیا جائے تویہ
Flag Counter