Maktaba Wahhabi

108 - 111
حقیقت صاف واضح ہوجاتی ہے۔ عہد ِرسالت میں رجم کے واقعات،کعب بن اشرف کا قتل، عذاب ِ قبر اور شفاعت کی روایتیں ، (( أمرت أن أقاتل الناس)) اور (( من بدَّل دینہ فاقتلوہ)) جیسے احکام اسی لیے اُلجھنوں کا باعث بن گئے کہ انہیں قرآن میں ان کی اصل سے متعلق کرکے سمجھنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ حدیث کے فہم میں اس اُصول کو ملحوظ رکھا جائے تو اس کی بیشتر اُلجھنیں بالکل صاف ہوجاتی ہیں ۔‘‘ (میزان:ص۷۲، طبع اپریل۲۰۰۲ء لاہور،اُصول و مبادی: ص۷۲، طبع فروری ۲۰۰۵ء لاہور) اس سے معلوم ہوا کہ غامدی صاحب کے نزدیک ۱۔ حدیث فہمی کے لیے ایک اُصول یہ ہے کہ حدیث کو قرآن کی روشنی میں سمجھا جائے، کیونکہ اُن کے نزدیک قرآن اور حدیث میں اصل اور اُس کی فرع کا تعلق ہے یا پھر متن اور اُس کی شرح کا۔ ۲۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پیغمبرانہ حیثیت سے جو کام کیا، اُس کی تاریخ کا حتمی اور قطعی ماخذ قرآن ہے۔ ۳۔ عہد ِ رسالت میں رجم کے واقعات،کعب بن اشرف کا قتل، عذابِ قبر اور شفاعت کی روایتیں ، (( أمرت اَن اُقاتل الناس)) اور(( من بدَّل دینہ فاقتلوہ)) جیسے احکام علماے اسلام کے لیے اُلجھنوں کا باعث اس لیے بن گئے کہ اُنہوں نے فرع (حدیث) کو اصل (قرآن) سے متعلق کرکے سمجھنے کا ’اُصولِ حدیث‘ نہیں اپنایا تھا۔ ۴۔ حدیث کو سمجھنے میں اب تک بہت غلطیاں ہوئی ہیں ۔ اب ہم ان چاروں نکات پر تفصیلی تبصرہ کریں گے: 1. کیا حدیث کو قرآن کی روشنی میں سمجھا جائے گا؟ فہم حدیث کے بارے میں غامدی صاحب کا یہ دعویٰ کہ حدیث کو قرآن کی روشنی میں سمجھا جائے گا، کیونکہ اُن کے نزدیک قرآن اور حدیث میں اصل اور اُس کی فرع کا تعلق ہے یا پھر متن اور اُس کی شرح کا… تو یہ ان کی اپنی ذہنی اختراع ہے جس کا مقصد انکار ِ حدیث کے سوا کچھ نہیں ۔ کیونکہ علماے اسلام کے ہاں یہ اُصولِ تفسیر تو مسلمہ ہے کہ قرآن کو حدیث کی روشنی میں سمجھنا چاہئے کہ اس سے قرآن کے مجمل احکام کی وضاحت ملتی ہے۔ مگر آج تک اہل علم
Flag Counter