میں سے کسی نے یہ دعویٰ کبھی نہیں کیا کہ حدیث کو قرآن کی روشنی میں سمجھنا بھی کوئی ’اُصول حدیث‘ ہے اور یہ کہ قرآن اور حدیث میں اصل اور اُس کی فرع کا تعلق متن اور اس کی شرح کا ہے ۔ مثال کے طور پر قرآن مجید میں نماز کا حکم اس طرح دیا گیا ہے کہ ﴿وَاَقِیْمُوْا الصَّلٰوۃَ﴾ (النور:۵۶) ’’اور نماز قائم کرو۔‘‘ قرآن کے اس مجمل حکم کو احادیث کی روشنی میں اس طرح سمجھا جائے گا کہ اس سے مراد دن رات میں پانچ مخصوص اوقات… فجر، ظہر، عصر، مغرب اور عشاء … کی فرض نمازیں مراد ہیں جن میں بالترتیب دو، چار، چار، تین اور چار فرض رکعات پڑھی جائیں گی اور ان نمازوں کے پڑھنے کا مسنون طریقہ ہے جو تکبیر تحریمہ سے لے کر قیام، رکوع، سجود اور قعدہ اخیرہ کے بعد دائیں بائیں سلام پھیرنے تک کا ہے۔ اس طرح حدیث کی روشنی میں قرآن کے مجمل حکم واقیموا الصلٰوۃ (اور نماز قائم کرو) کا اصل منشا اور صحیح مدعا سمجھا جاسکتا ہے۔ اسی طرح زکوٰۃ کے بارے میں قرآن مجید میں حکم ہے کہ ﴿وَاٰتُوْا الزَّکٰوۃَ﴾ (النور :۵۶) ’’اور زکوٰۃ ادا کرو۔‘‘ قرآنِ مجید کے اس مجمل حکم کو حدیث کی روشنی میں اس طرح سمجھا جائے گا کہ زکوٰۃ سے مراد وہ مخصوص مال ہے جسے ایک مسلمان شخص اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے مال میں سے مقررہ نصاب کے مطابق اس کے مستحق لوگوں کے لیے نکالتا ہے۔ یہ زکوٰۃ سونے اور چاندی (نقدی)، مالِ تجارت، زرعی پیداوار اور مویشی وغیرہ پر دی جاتی ہے۔ سونے کا نصاب ساڑھے سات تولے اور چاندی کا نصاب ساڑھے باون تولے ہے۔ ان دونوں پر ڈھائی فیصد یعنی چالیسواں حصہ کے حساب سے سالانہ زکوٰۃ ادا ہوگی۔ نقدی اور مالِ تجارت کے لیے بھی یہی شرح ہے۔ زرعی پیداوار میں سے بعض عشر اور بعض پر نصف عشر ادا کیا جائے گا اور اس کے لیے سال گزرنے کی شرط نہیں ہے بلکہ یہ فصل کٹنے پر فرض ہوجاتاہے۔ مویشیوں میں سے اونٹ، گائے اور بھیڑ بکری پر ان کی مختلف تعداد کے لحاظ سے نصاب کے مطابق سالانہ زکوٰۃ ہے۔ لہٰذا احادیث کی ان تفصیلات کی روشنی میں قرآن کے اس مجمل حکم واٰتوا الزکوٰۃ (اور زکوٰۃ ادا کرو) کو سمجھا جائے گا۔ اسی طرح قرآنِ مجید کے دوسرے احکامات کو احادیث کی روشنی |