میں سمجھنا چاہئے۔ لیکن اگر غامدی صاحب کے بنائے ہوئے اس اُصولِ حدیث کو صحیح مان لیا جائے تو اس کے نتیجے میں ۹۰ فیصد احادیث ِصحیحہ کا انکا رکرنا پڑے گا، کیونکہ وہ قرآن کی روشنی میں سمجھی نہیں جاسکتیں اس لیے کہ وہ قرآن میں موجود ہی نہیں ہیں ۔ مثال کے طور پر درج ذیل صحیح احادیث ایسی ہیں جن کو قرآن میں تلاش نہیں کیا جاسکتا مگر یہ ایسی ہیں جن کو علماے اسلام چودہ سو برس سے مانتے آرہے ہیں اور اُمت ِ مسلمہ ان پر عمل پیرا رہی ہے : ۱۔ مردوں کے لیے ریشم اور سونے کاحرام ہونا۔ ۲۔ پالتو گدھے کے گوشت کا حرام ہونا۔ ۳۔ کُتے کا گوشت حرام ہونا۔ ۴۔ مُرتد کے لیے قتل کی سزا ہونا۔ ۵۔ شادی شدہ زانی کے لیے رجم (سنگساری) کی حد (سزا) ۶۔ شراب، مردہ جانور اور بتوں کی تجارت کا حرام ہونا۔ ۷۔ عورت کے لیے خاص ایام میں نمازیں نہ پڑھنا اور بعد میں اُن کی قضا نہ کرنے کا حکم۔ ۸۔ حیض کی حالت میں بیوی سے بوس و کنارکی اجازت ہونا۔ ۹۔ شہید کی میت کو غسل نہ دینا اور اُس کو کفن نہ پہنانا۔ ۱۰۔ قرآن پڑھنے کے دوران اُس کے بعض مقامات پر سجدۂ تلاوت کرنا۔ ۱۱۔ سورۂ فاتحہ پڑھنے کے بعد آمین کہنا۔ ۱۲۔ مردہ مچھلی کا حلال ہونا۔ ۱۳۔ وضو کرتے وقت موزوں پرمسح کرنا۔ ۱۴۔ کسی عورت اور اس کی پھوپھی یا خالہ کا بیک وقت کسی مرد کے نکاح میں ہونا حرام ہے۔ ۱۵۔ قاتل شخص کا مقتول کی وراثت سے محروم ہونا۔ |