Maktaba Wahhabi

111 - 111
۱۶۔ وارث کے حق میں وصیت کا ناجائز ہونا۔ ۱۷۔ ایک تہائی سے زیادہ وصیت کرنے کی ممانعت۔ ۱۸۔ مسلمان اور کافر کا ایک دوسرے کے لیے وارث نہ ہونا۔ ۱۹۔ شراب نوشی پر سزا ہونا۔ ۲۰۔ مکہ مکرمہ کی طرح مدینہ منورہ کا حرم ہونا۔ ۲۱۔ ذمّی (غیر مسلم اقلیت) کے حقوق ۲۲۔ مریض کی عیادت کرنا۔ یہ اور اس طرح کی بے شمار احادیث ہیں جن کو اُمت مانتی اور ان پر عمل کرتی ہے۔ حالانکہ ان کا ثبوت قرآنِ مجید سے نہیں ہوسکتا۔ اب اگر غامدی صاحب کے بنائے ہوئے ’اُصولِ حدیث‘ کو درست تسلیم کرلیا جائے تو ایسی بے شمار احادیث کا انکار کرنا پڑے گا، کیونکہ جب کوئی شخص ان احادیث کو قرآن میں نہیں پاسکے گا تو وہ لامحالہ ان کا انکار کرکے منکر ِحدیث ہوجائے گا یا پھر غامدی صاحب کے اس گھڑے ہوئے مذکورہ ’اُصولِ حدیث‘ ہی پر لعنت بھیجے گا کہ حدیث کو قرآن کی روشنی میں سمجھنا ضروری ہے۔ اسی طرح غامدی صاحب کا یہ دعویٰ کہ قرآن اور حدیث میں اصل اور اُس کی فرع کاتعلق یا متن اور اُس کی شرح کا ہے تو مذکورہ بالا احادیث کے احکام اگر فرع ہیں تو ان کی اصل کہاں ہے اور اگر وہ شرح ہیں تو اُن کا متن قرآنِ مجید میں کہاں موجود ہے؟ پھر اگر یہ دونوں چیزیں وہاں نہ مل سکیں اور یہ کبھی نہیں مل سکتیں تو کیا پھر یہ اعلان کردیا جائے کہ غامدی صاحب کے بتائے ہوئے اُصولِ حدیث کے مطابق ایسی تمام احادیث ناقابل اعتبار ہیں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سمیت پوری اُمت ِمسلمہ ان سب احادیث کو مان کر چودہ سو برس سے گمراہی میں بھٹک رہی ہے؟ 2. کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغمبرانہ کام کی تاریخ کا حتمی اورقطعی ماخذ صرف قرآن ہے؟ غامدی صاحب کا یہ دعویٰ بھی صحیح نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغمبرانہ کام کی تاریخ کا حتمی اور
Flag Counter