شرعیہ کے ساتھ کھیل اور مذاق ہے۔ ٭ مروّجہ اسلامی بینکوں میں شخصِ قانونی(Juristic Person)اور اس کی محدود ذمہ داری کا ظالمانہ، غیرمنصفانہ، اور استحصالی تصوربھی کار فرما ہے،بلکہ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ جبکہ شخص قانونی اوراس کی محدود ذمہ داری کا تصور، بینک (شخص قانونی) اور اس کے اعضا و جوارح کو غیر محدود نفع پہنچانے اور نقصان کی بھاری ذمہ داریوں سے بچانے کے لئے ناروا اور خلافِ شرع تصور ہے،اس تصور میں شخصِ قانونی کے اعضا و جوارح کے لئے بہترین فائدہ اور دائنین کا بدترین استحصال پایا جاتا ہے۔کیونکہ جب تک منافع کی ریل پیل ہو،بے جان شخص قانونی حقیقی انسان سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے اور جب نقصان اُٹھانے کی نوبت آجائے تو شخص قانونی محدود ذمہ دار ی کا کفن پہن کر موت کے کنویں میں اُترجاتاہے۔ اس تصور کے خلافِ اسلام ہونے کے علاوہ اس میں انسانیت کی تو ہین بھی ہے۔ کیونکہ یہاں حقیقی انسان کو فرضی انسان کا نوکر چاکر بنانالازم آتا ہے۔ اس کے باوجود اس غیر اسلامی تصور کو اسلامی ثابت فرمانے کے لئے بے پناہ علمی بچتیں صرف فرمائی گئی ہیں اور اس رائے پر ایسے استدلالات کیے گئے ہیں جن کی اُصولا گنجائش ہر گز نہیں تھی۔ مروّجہ اسلامی بینکاری کے مجوزین اور وابستگان خود اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ مروّجہ اسلامی بینکوں کے معاملات خالص غیر سودی حلال اور جائز نہیں ہیں بلکہ بعض معاملات جائز اوربعض ناجائز بھی ہیں ۔ ایسے معاملات کم از کم مشتبہ تو ضرور ہوتے ہیں ۔ایسے معاملات پر اُصولِ شریعت کے مطابق بالاتفاق جواز اور حلت کے بجائے ،عدمِ جواز اور عدمِ حلت کا حکم لگایا جاتا ہے ،یعنی اگر بالفرض مروّجہ اسلامی بینکوں کے بعض معاملات کو جائز تسلیم کر لیا جائے تو بھی مطلق جواز بیان کرنے کی گنجائش نہیں نکل سکتی ،چنانچہ ایسے معاملات کے بارے میں مخدوم العلما مولانامفتی محمد تقی عثمانی مد ظلہ کا ایک فتویٰ بطورِ نمونہ ملاحظہ ہو جو اُنہوں نے غیر سودی کاؤنٹروں کے حکم کے ضمن میں تحریر فرمایا ہے۔ اس تجزیے سے یہ بات واضح ہوئی کہ فی الحال ان غیر سودی کاؤنٹروں کا کاروبار جائز اور ناجائز معاملات سے مخلوط ہے، اور اس کا کچھ حصہ مشتبہ ہے۔ لہٰذا جب تک ان خامیوں کی اصلاح نہ ہو، اس سے حاصل ہونے والے منافع کو کلی |