Maktaba Wahhabi

96 - 111
اصلی بنیادوں یعنی مشارکہ و مضاربہ کی بنیاد پر سرمایہ کاری کو قصداً و عمداً وسعت نہیں دے رہے۔ اگر بینک دو لت آف پاکستان کی طرف سے رکاوٹ بننے کا عذر ہو تا تو بھی کسی حد تک اسلامی بینکاروں کو مجبورتسلیم کرنے کی گنجائش ہو سکتی تھی، جیسا کہ اب تک بعض علماے اُمت اس مجبوری کے پیش نظرخاموش انتظار کرتے رہے ہیں ۔ مضاربہ میں کھاتہ دار ربّ المال اور بینک مضارِب ہوتا ہے۔ مالِ مضاربت میں بینک کا حصہ شرعاً صرف اور صرف حاصل شدہ نفع کی طے شدہ شرح ہے، اس کے علاوہ بینک کے لئے شرعاًاپنے ذاتی انتظامی اخراجات کی مد میں رقم لینا، اسی طرح مختلف فیسیں لینا یاکسی قسم کا معاوضہ اور الاؤنس، مالِ مضاربت سے منہا کرنا ناجائز ہے۔ مگر اسلامی بینک مضاربہ فیس وغیرہ وصول کرتے ہیں ۔ اس کے باوجود مروّجہ بینکوں کو اسلامی کہا جاتا ہے جو کہ خلافِ اسلام کو اسلام کہنے کے مترادف ہے۔ شرکت و مضاربت میں منافع کی تقسیم کا مجوزہ طریقہ کا ربھی، اسلامی تقاضے پورے نہیں کرتا بلکہ منافع کی حقیقی شرح کے بجائے روزانہ پیداوار کی بنیاد پر یا وزن دینے کے نام سے فرضی اور تخمینی شرح طے اور ادا کی جاتی ہے جو کہ شرکت و مضاربت کے اساسی اُصولوں کے سراسر خلاف ہے۔ ’شرکت ِ متناقصہ‘ شرعی اعتبار سے ممنوع مکاسب اور ناجائز بیوع کے زمرے میں داخل ہے۔اس عقد میں صفق في صفقہ (معاملہ در معاملہ) بیع و شرط اور ’بیع ثنیا‘ جیسی متعدد خرابیاں پائی جاتی ہیں ،اس لئے ناجائز ہے۔ مگر اس کے باوجو د ان نصوصِ شرعیہ کو بالاے طاق رکھتے ہوئے شرکت ِ متناقصہ کا جواز بیان فرمایا گیا اور اسلامی بینکوں نے اسے ذریعۂ تمویل کا اہم ستون بنایا ہواہے۔ شرکت ِ متناقصہ کو اسلامی استقرائی طریقۂ تمویل کہنے کی بجائے خلافِ اسلام کہنا علما کا فرضِ منصبی تھا ،مگر بعض لوگوں نے اپنے اس فرض سے قصداً غفلت برتی ہے۔ واضح رہے کہ شریعت ِاسلامیہ اور فقہ ِاسلامی کے ماہرین کی امانت و دیانت اور تدین وتقویٰ اس بات پر گواہ ہے کہ فقہ ِ اسلامی کے ذکر کردہ واضح احکام ایسے ہیں کہ ان کو ردّ کرنے کے لئے کو شش کرنا یا کسی قسم کی تاویل کرنا، تاویلِ فاسد کے زمرے میں آتا ہے ،بلکہ یہ نصوص
Flag Counter