Maktaba Wahhabi

95 - 111
تناسب، اجارہ و مرابحہ کے مقابلے میں ایک سروے اور محتاط اندازے کے مطابق زیادہ سے زیادہ صرف پندرہ سے بیس فیصد ہے۔ بالفرض اگر پچاس فیصد بھی مان لیا جائے تو ما اجتمع حلال وحرام إلا غلب الحرام الحلال (حلال و حرام جب بھی جمع ہوئے حرام حلال پر غالب رہا) کے پیش نظرنیز احوالِ واقعی کے مطابق سرمایہ کاری کے حلال طریقے قلیل کالمعدوم ہوں ، اور غیر شرعی طریقوں کا عنصر زیادہ ہو تو ایسا ملغوبہ طریقۂ تمویل غیر شرعی ہی کہلا تا ہے۔ اس لئے مروجہ اسلامی بینکوں کے طریقۂ تمویل کو شرعاً جائز کہنے کی کوئی اُصولی گنجائش موجود نہیں اس کے باوجود اسے جائز کہا جاتا ہے اور اس کا جواز جتلایا بھی جاتا ہے۔ ٭ مروّجہ مشارکہ و مضاربہ میں خلافِ شرع معاہدات طے ہوتے ہیں ،مثلاً ایک اسلامی بینک میں اکاؤنٹ کھلوانے والے کو جو فارم پر کرنا پڑتا ہے، اس میں بینک کی شرائط، پالیسی اور بینک سے متعلق وہ سارے قوانین و اعلانات بلا تفصیل ماننے ہوں گے جو بینک کرے گا۔ نیز جو قواعد اور اعلانات ’بینک دو لت آف پاکستان‘ جاری کرے، اس کی پابندی کا عہد بھی لیا جاتاہے۔ حالانکہ اسلامی بینک کے اعلانات اور پالیسیاں بدلتے رہتے ہیں ،یکساں نہیں ہوتے۔ ایسے مجہول اور غیرمعلوم اعلانات کا گاہک کو پیشگی معاہدے کے ذریعہ پابندبنانا شرعاً جائز نہیں اور مجہول و غیر معلوم شرائط اور ذمہ داریوں والا معاملہ شرعاً فاسد کہلاتا ہے نہ کہ صحیح اور جائز۔ اسی طرح مسلما ن گاہک کو بینک دولت آف پاکستان کے اعلانات اور پالیسیوں کا پابند بنانا بھی بالکل ناجائز ہے، کیونکہ اسٹیٹ بینک کا غیراسلامی مزاج اور شرعی احکام کی خلاف ورزی کا معاملہ سورج کی طرح واضح ہے۔ فائدہ:بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ بینک دولت آف پاکستان نے اسلامی بینکوں کو اپنی پالیسیاں ، اسلام کے مطابق بنانے اور سرمایہ کاری کرنے کے لئے تحریری اور قانونی طور پر کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ اگر اسٹیٹ بینک کے غیراسلامی مزاج سے قطع نظر ہم ان حضرات کی اس بات کو تسلیم کرلیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہمارے مروّجہ اسلامی بینک اپنی اصلی اور حقیقی بنیادوں پر سرمایہ کاری کرنے کے لئے عملاً و قانوناً آزاد ہونے کے باوجوداسلامی بینکاری کی
Flag Counter