Maktaba Wahhabi

94 - 111
اشتباہ بھی ہے۔ دوسرے یہ کہ روایتی سود کی شرح مختلف اوقات میں بدلتی رہتی ہے یا افراطِ زر کی وجہ سے کمی بیشی ہوتی رہتی ہے ۔ایسا اجارہ جس میں اُجرت کی شرح و تناسب یقینی طور پر پیشگی معلوم نہ ہو، وہ ناجائز ہوتا ہے۔ مگر ہمارے اسلامی بینکار حسب ِعادت یہاں بھی اصل احکام کو چھوڑ کر خلافِ شریعت طریقوں کو شرعی جواز فراہم کرنے کی تگ ودو میں لگے ہوئے ہیں ۔ ٭ اسی طرح مروّجہ اجارہ یا کسی بھی عقد میں قسطوں کی ادائیگی یا تاخیر کی صورت میں گاہک سے اِجباری صدقہ کر وانااور لینا دونوں شرعاً، عرفاً،قانوناً اور عقلاً صدقہ نہیں بلکہ جرمانہ ہے جوکہ بلاشبہ ناجائز ہے اورخالص سودی ہے، بلکہ جس فقہی عبارت سے بعض اہل علم نے اس کا جواز ثابت فرمایا ہے، خو د اسی عبارت سے اس جرمانے کا صریح سود ہو نا ثابت ہو تا ہے۔کیونکہ یہ صدقہ بینک کے مقاصد کے لئے بینک کی شرائط اور ترجیحات کی لازمی رعایت کے ساتھ اس کے مجبور کرنے پر گاہک کوبینک کے لئے ادا کرنا پڑتا ہے۔ اس مسئلے میں بھی مروّجہ اسلامی بینکاری کے مجوزین کو سہواً یا عمداً بہت بڑا مغالطہ لگا ہے کہ اُنہوں نے بینک کی ایک غیر شرعی ضرورت کو شرعی ثابت کرنے کے لئے بہت دور کی بات، بہت دور سے ثابت فرمانے کی کوشش فرمائی ہے جس کی بالکل گنجائش نہیں تھی، حالانکہ صاف ظاہر ہے کہ جہاں جبر ہو وہ صدقہ نہیں ۔ جہاں اصطلاحی صدقہ ہو ، وہاں جبر نہیں ہو سکتا ۔ ٭ اسی طرح اجارہ اورمروّجہ بینکوں کے دیگر عقود میں سکیورٹی ڈپازٹ کی قانونِ شریعت میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔اِصطلاحی شرک و مضارب ،اجارہ ، مرابحہ وغیرہ یہ سب امانات کے قبیل سے ہیں نہ کہ ضمانات کے قبیل سے،جبکہ سکیورٹی (رہن) صرف ضمانات پہ لی جاسکتی ہے، وہ بھی سیکورٹی (رہن)کے احکام کے مطابق۔ جبکہ ہمارے اسلامی بینکوں میں رائج سیکورٹی نہ رہن ہے نہ قرض ہے، نہ امانت ہے ۔بلکہ دوسرے کے مال سے فائدہ اٹھانے کے لئے خلافِ شرع حیلہ اور بہانہ اور تلفیق بھی ہے جو کہ ناجائز اور حرام ہے ۔ ٭ مروّجہ اسلامی بینک شرکت و مضاربت کو اصلی حقیقی بنیادیں تسلیم کرلینے کے باوجود وہ بھی ان اصلی بنیادوں پر سرمایہ کاری بھی نہیں کررہے۔ یہی وجہ ہے کہ شرکت و مضاربت کا
Flag Counter