دوسری طرف اسلامی بینکوں کے مالی جرمانہ کے جواز کے لئے ابن دینار مالکی رحمۃ اللہ علیہ کے مرجوح متروک کالمعدوم قول پر اعتمادکیا گیا حالانکہ اس قول پر عمل کرنا شرعاً و اصولاًجائز بھی نہیں تھا،مگر اسلامی بینکاری کے مجوزین نے ان شرعی اُصولی نزاکتوں سے قصداً چشم پوشی فرمائی ہے، ورنہ یہ واضح احکام ان سے ہر گز پوشیدہ نہیں تھے۔ ٭ مروّجہ اسلامی بینکوں میں رائج مرابحہ او رمرابحہ فقہیہ میں کوئی مماثلت نہیں ۔مرابحہ فقہیہ میں ابتدا سے قیمت و ثمن کا متعین ہو کر ذمے میں آنا اور لاگت کا یقینی علم اوروجود ضروری ہے جبکہ بنکوں میں رائج مرابحہ میں بینک ثمن کی ادائیگی پہلے نہیں کرتا یا لاگت کا وجودہی نہیں ہوتا۔ اس لئے بینکی مرابحہ، اصطلاحی مرابحہ تو درکنار عام کسی بیع کے تحت بھی نہیں آ تا۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ایسے معاملہ کو مرابحہ کا نام دینا شرعاً خیانت کہلاتا ہے اور ناجائز شمار ہو تا ہے، مگر مروجہ اسلامی بینکاری میں اسی خیانت کو ’مرابحہ‘ کے نام سے رواج دیا گیا ہے۔ ٭ مروجہ اسلامی بینکوں میں رائج مرابحہ میں بینک کا کاغذی معاہد ہ جس پر پیشگی دستخط ہو چکے ہیں ، وہی اصل ہے۔ اس کے بعد وکالت کے مختلف مراحل شرعی اعتبار سے وکالت ہرگز نہیں بن سکتے بلکہ لین دین کی ذمہ داری ایک شخص کے گرد گھومنے کی وجہ سے صراحتاً وکالت ِفاسدہ ہے۔ اس لئے وکالت کا یہ طریقہ کار شرعاً محض کاغذوں کی لکیریں اور لفظی ہیراپھیری ہے۔ حقیقت میں ایک ہی فرد بائع اور مشتری بن رہا ہے جو کہ صراحتاً خلافِ شرع ہے۔ اس مرابحہ کا شرعی اصطلاحی مرابحہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ پس بینکی مرابحہ خالصتاً سودی حیلہ ہے اور ان بینکوں کا نفع ربح نہیں ، ربو ٰہے۔ ٭ مروّجہ اِجارہ میں عاقدین کا بنیادی مقصد اجارہ کا معاملہ نہیں ہوتا بلکہ خریداری کا معاملہ کرنا مقصود ہو تا ہے۔ قاعدہ و قانون کی رو سے حکم، اصل مقصد (بیع) پر ہی لگے گا نہ کہ الفاظ(اجارہ) پر۔اس سے اس معاملہ کو اگر بیع کہا جائے تو یہ بیع مشروط بالاجارہ ہے جو خلافِ شریعت ہے۔ ٭ مروّجہ اجارہ میں اُجرت کی شرح کی تعیین اور تناسب کے لئے روایتی سود کی شرح کو معیار بنانا ہی بنیادی طور پر غلط ہے ۔ کیونکہ یہ سودی معاملات کے ساتھ اوّلاً مشابہت ،ثانیاً |