Maktaba Wahhabi

92 - 111
شہادت ہے کہ مروّجہ اسلامی بینکاری کا عملی طریقہ کار فراہم کردہ اسلامی بنیادوں کی بجائے روایتی بینکوں کے سرمایہ کاری کے طریقوں پر چل رہا ہے، اس لئے روایتی اور اسلامی بینکوں میں صرف چند اصطلاحوں کا لفظی فرق ہے، عملی طریقہ کار اور اہداف واغراض میں دونوں یکساں ہیں ۔ دوسری وجہ مروجہ اسلامی بینکاری کو خلافِ اسلام کہنے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ مروّجہ اسلامی بینکاری کے لئے فراہم کردہ بنیادیں بھی بایں طور سقم سے خالی نہیں کہ ان بنیادوں کی تطبیق، تشریح ، تعبیر، استدلال اور طرزِ استدلال میں مروجہ بینکاری کے مجوزین حضرات نے شرعی اعتبار سے خطرناک قسم کی ٹھوکر یں کھائی ہیں ۔مثلاً: ٭ ان حضرات کے استدلال اور طرزِ استدلال میں بنیادی غلطی یہ ہے کہ بینکاری کے لئے مفید تجارتی شکلوں کو اسلامائز کرنے کے لئے کئی فقہی اصطلاحوں میں قطع وبرید کی گئی ہے، خلافِ ضابطہ ضعیف اور مرجوح اقوال پر اعتمادد وانحصار کیا گیا ہے۔ ایک ہی معاملہ میں شرعی تقاضے پورے کئے بغیر مذہب ِغیر کی طرف جانے کی روش کو مباح سمجھا گیا جو کہ تمام مذاہب فقہ کے ہاں تلفیق محرم (مختلف اقوال کو ملانے کی حرمت) ہوکر بالاجماع باطل ہے، اسی طرح حسب ِ منشا کسی تجارتی شکل کواسلامی شکل ثابت کرنے کے لئے اور اسلامی لبادہ پہنانے کے لئے صحیح، صریح اور واضح شرعی احکام سے عمداً صرفِ نظر کرتے ہوئے، دور اَزکار تاویل در تاویل کا طریقہ کار اختیار فرمایا گیا جسے علماے شریعت نے شریعت کی توہین،تعطیل اور شرعی احکام کا مذاق قرار دیاہے، کیونکہ یہ طرزِ عمل تاویل فاسد کے زمرے میں آتا ہے۔ ٭ بینکوں میں رائج کردہ مرابحہ و اجارہ محض حیلے ہیں ، یہ اسلامی تمویلی طریقے بالاتفاق نہیں اس کے باوجود ان حیلوں کو مستقل نظام بنانا ناجائز ہے۔ ایسے حیلوں کے ذریعے انجام پانے والا معاملہ بھی ناجائز ہی کہلاتا ہے۔جیسے امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں بیع عینہ کا حیلہ ناجائز ہے، اسی طرح مروجہ مرابحہ و اجارہ کے حیلے اور ان کو ذریعہ تمویل بنانا بھی ناجائز ہے۔ اسلامی بینکاری کے مجوزین نے اس طرح کے واضح احکام کو تاویل در تاویل کے ذریعے نظر انداز فرمایا جبکہ
Flag Counter