Maktaba Wahhabi

91 - 111
دوسری شہادت: یہی وجہ ہے کہ اسلامی بینکاری کے پشتیبان حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی جن کے فتویٰ اورشخصیت پر اس سلسلہ میں اعتماد کیا جاتا ہے، وہ اس بینکاری نظام سے سخت نالاں اور مایوس ہیں جس کا اظہار اُنہوں نے مختلف تحریروں اور بیانات میں فرمایا ہے، انہی مایوسیوں کے نتیجہ میں وہ اس نظام سے رفتہ رفتہ دورہونے کا عندیہ بھی دے رہے ہیں اور برملا یہ ارشاد بھی فرماچکے ہیں کہ مروّجہ اسلامی بینکاری کاپہیہ اب اُلٹا چلنے لگا ہے۔ (مولانا مد ظلہ کے اس بیان کی کیسٹ اور سی ڈی ہمارے پاس محفوظ ہے۔) جس کا مطلب اس کے سوا اور کچھ نہیں بیان کیا جاسکتا کہ مروّجہ اسلامی بینکاری کو شروع سے غیر اسلامی کہنے والے حضرات کے خدشات اور اندیشے تو بالکل درست ہی ہیں ، اس پر مستزاد یہ کہ جو حضرات ان بینکوں کی بہتری اور اسلام سے ہم آہنگ ہونے کی توقع کررہے تھے اوراسلامی بینکاری سے نیک خواہشات وابستہ کئے ہوئے تھے، وہ بھی اس کی بہتری اور اسلام سے ہم آہنگی کا تصور اب محض ایک ادھورا خواب سمجھنے پر مجبور ہورہے ہیں ۔ اگر مروجہ اسلامی بینک اپنے مجوزہ مطلوبہ شرعی معیار پر کام کر رہے ہوتے تو ہمارے ان بزرگوں کو مایوسیوں کا سامنا ہوتا ،نہ ہمارے بینکار حضرات کو ان کے شکوے سننے پڑتے۔ تیسری شہادت : ان لا تعداد عوام الناس اور دانشوروں کی ہے جنہوں نے روایتی اور مروّجہ اسلامی دونوں بینکوں سے اپنے معاملات رکھے ،مگر وہ کسی بھی طور پر دونوں کے درمیان کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ فرق بھی تلاشِ بسیار کے باوجود محسوس نہیں کرپائے، حالانکہ اس طبقہ میں ایک عام اکاؤنٹ ہولڈر سے لے کر بڑے سے بڑے اقتصادی ماہرین اور نامور بینکار حضرات تک بھی شامل ہیں جن کے بارے میں بلاخوفِ تردید یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ بینکاری نظام، اس کی باریکیوں اور اکائیوں سے اتنی گہرائی اور گیرائی کا تعلق رکھتے ہیں کہ اس میدان میں ان کی معلومات کا پہلا زینہ ہمارے جدید اسلامی بینکاروں کی آخری منزل کے بعد شروع ہوتاہے۔ ان ماہرین نے بینکاری نظام، صرف رسائل وجرائد یا اسباق ودروس کے ذریعہ نہیں سیکھا، بلکہ ان کی زندگی کا کارآمد عرصہ ان بینکوں میں گذرا ہے، اس کے باوجود اُنہیں روایتی اور اسلامی بینکوں کے درمیان چند اسلامی اصطلاحوں کے علاوہ کوئی فرق محسوس نہیں ہوسکا، جو اس بات پر
Flag Counter