مطلوبہ معیارات پر بھی استعمال نہیں کیا جارہا، جس کے نتیجہ میں مروّجہ اسلامی بینکاری، روایتی بینکاری سے اپنا جداگانہ اسلامی تشخص قائم کرنے میں شروع سے ناکام چلی آرہی ہے اور ایسے نازک طریقوں پر پیش قدمی کررہی ہے کہ جن طریقوں پر چلتے ہوئے اسلامی بینکاری روایتی بینکاری سے قطعاً ممتاز نہیں ہوسکتی ،جس کی وجہ سے آخری نتیجہ مادی طور پر سودی معاملات سے مختلف نہیں ہو رہا ،اس پر تین ناقابل تردید شہادتیں ملاحظہ ہوں : پہلی شہادت: مروّجہ اسلامی بینکوں کے مجوزین علماے کرام اورمروّجہ اسلامی بینکاری سے وابستہ حضرات یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ اسلامی بینکاری کی حقیقی اور اصلی بنیادیں شراکت اورمضاربت ہیں اورمروّجہ مرابحہ واِجارہ محض حیلے ہیں ، جنہیں محدود وقت اور عبوری دور کے لئے مشروط طور پر جائز اور قابل عمل قرار دیا گیا تھا، مروّجہ مرابحہ واِجارہ بالاتفاق اسلامی بینکاری کی مستقل مثالی بنیادیں ہرگز نہیں ہیں ، بلکہ اُنہیں مستقل بنیادبنانا بھی سودی حیلہ ہونے کی بنا پر ناجائز اور خلافِ شرع ہے، مگر اس کے باوجود ہمارے بینکار حضرات شراکت ومضاربت کی بجائے مروّجہ اِجارہ ومرابحہ پر جم کر بیٹھ چکے ہیں اور ان کے خطرناک ہونے اور سودی حیلہ ہونے اور روایتی معیارات کے فریم ورک میں استعمال ہونے، نیز مادی طور پر سودی معاملہ ہونے کے باوجود ان حیلوں کو ترک کرنے کے لئے آمادہ نہیں ، کیونکہ مروّجہ اجارہ ومرابحہ کوروایتی معیارات کے فریم ورک میں استعمال کرنے سے بعینہٖ روایتی بینکاری کی ایسی شکل وصورت اور خاصیت وافادیت کا نتیجہ برآمد ہوتاہے جو ہر بینکار کے لئے قابل قبول ہے۔ اس کے مقابلہ میں شرکت ومضاربت کا عنصر اسلامی بینکوں میں قلیل کالمعدوم کے درجہ میں ہے اور نفع و نقصان میں شرکت کے اسلامی اُصولوں کی وجہ سے شرکت ومضاربت مروجہ بینکوں کے لئے کسی قسم کی دلچسپی کا ذریعہ نہیں ہیں ، اس لئے بجا طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ مروّجہ اسلامی بینکاری اپنی فراہم کردہ اصل بنیادوں سے ایسی ہٹی ہوئی ہے کہ اس کا اصل بنیادوں کی طرف بڑھنا محال کے درجہ میں صاف نظر آرہاہے۔کیونکہ اسلامی بینک کی حقیقی بنیادیں ایک طرف جب کہ مروّجہ اسلامی بینکاری کا رخ مخالف سمت میں ہے۔ |