شرعی سمجھ کر جو معاملات کئے جاتے ہیں ، وہ ناجائز اور حرام ہیں اور ان کا حکم دیگر سودی بینکوں کی طرح ہے ۔ بایں معنی اس تفصیل سے یہ بات پوری طرح عیاں ہو چکی کہ مروّجہ اسلامی بینکاری درحقیقت غیر اسلامی بینکاری ہے اور لوگ اسے اسلامی بینکاری سمجھتے ہوئے اس کے ساتھ معاملات کررہے ہیں ، اس لئے علماے اُمت مروّجہ اسلامی بینکاری کو روایتی بینکاری کے مقابلے میں مسلمانوں کے حق میں زیادہ خطرناک سمجھتے ہیں ، اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی ناجائز اور خلافِ شرع معاملے کو ناجائز سمجھتے ہوئے کرنا کم درجہ کا جرم ہے اور اسے جائز سمجھتے ہوئے کرنا بڑے درجے کا جرم ہے۔ روایتی بینکار، سودی معاملات کرتے ہیں مگر سودی معاملات سمجھتے ہوئے، جبکہ مروّجہ اسلامی بینکار انہی جیسے سودی معاملات اور خلافِ شرع معاملات کو غیر سودی اور شرعی سمجھتے ہوئے کررہے ہوتے ہیں ،اور یہ پہلے کی بہ نسبت ایمان اور آخرت کے اعتبار سے زیادہ خطرناک ہے ،کیونکہ روایتی بینکار مسلمان خود کو شرعی مجرم اور گنہگار سمجھتے ہوئے اپنے ناجائز اور سودی معاملات کی معافی کے لئے تو بہ کے دروازے تک پہنچ سکتا ہے، اسے تو بہ کی توفیق مل سکتی ہے جبکہ مروّجہ اسلامی بینکاری میں اپنے خلافِ شرع معاملات پر نہ تو بہ کا داعیہ پیدا ہو گا اور نہ ہی توبہ کی توفیق میسر آسکتی ہے ،کیونکہ وہ اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتا،اللہ تعالیٰ توبہ اور مغفرت سے اسی کو نوازتے ہیں جو محتاج بن کر اللہ کی طرف متوجہ ہو۔ اس لئے مسلمانوں پر واجب اور لازم ہے کہ دیگر حرام اور خلافِ شرع اُمور کی طرح اسلام کی طرف منسوب مروّجہ اسلامی بینکاری سے بچنے کا بھی بھر پور اہتمام کریں اور اپنے سابقہ معاملات پر توبہ و استغفار کریں ۔بے شک اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا ہے جو اس کی طرف رجوع کرے۔‘‘واﷲ تعالیٰ أعلم بالصواب وإلیہ المرجع والمآب! وصلی اللہ وسلم علیٰ سیدنا محمد وعلیٰ آ لہ وصحبہ واتباعہ اجمعین |