Maktaba Wahhabi

87 - 111
اس میں کوئی شک نہیں کہ فقہاے احناف کے نزدیک دھاتی سکے زر ہیں ، اسی لئے وہ ان میں زکوٰۃ بھی واجب قرار دیتے ہیں ، لیکن امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک متعاقدین دھاتی سکوں کو متعین کر کے ان کی زر ی حیثیت ختم کر سکتے ہیں ، اس صورت میں یہ سامان کے حکم میں ہوتے ہیں اوران حضرات کے نزدیک کمی بیشی کے ساتھ ان کا تبادلہ بھی صحیح ہو تا ہے۔ ان شواہد سے ثابت ہوتا ہے کہ فقہا کی نظر میں دھاتی سکے( فلوس) یا تو زر ہی نہیں یا پھر ناقص زر ہیں ، اسی لئے وہ ان سے زرکاوصف ختم کرنے کی اجازت دیتے ہیں ۔جو صورت بھی ہو بہر حال کرنسی نوٹوں کو ان پر قیاس نہیں کیا سکتا،کیونکہ نہ تودھاتی سکوں کی طرح ان میں سامان کا پہلوغالب ہے۔ یہ تو محض کاغذ کے ٹکڑے ہیں ، ان کی جو حیثیت بھی ہے، وہ ان کی پشت پر حکومتی ضمانت کی وجہ سے ہی ہے اور نہ ہی متعاقدین کو ان کی زری حیثیت کالعدم کرنے کااختیار ہے، کیونکہ یہ قانونی زر ہیں ۔ 5. اس سلسلہ میں پانچویں اورآخری رائے یہ ہے کہ نوٹ سونے چاندی کی طرح مستقل زر ہے، کیونکہ نوٹوں میں زر کی تما م صفات پائی جاتی ہیں ۔ قیمتوں کا پیمانہ اور قابل ذخیرہ بھی ہیں اور لوگ ان پر اعتماد بھی کرتے ہیں ۔ شرعی اعتبار سے یہی زر کی حقیقت ہے جیسا کہ ہم شروع میں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول نقل کر آئے ہیں : ’’اگر لوگ اپنے درمیان چمڑوں کے ذریعے خرید وفروخت کورائج کر دیں یہاں تک کہ وہ چمڑے ثمن اور سکہ کی حیثیت اختیار کر جائے تو میں سونے چاندی کے بدلے ان چمڑوں کو اُدھار فروخت کرنا پسند نہیں کروں گا ۔‘‘ اس کا مطلب ہے کہ کسی بھی چیز کو خواہ وہ چمڑا ہی کیوں نہ ہو بطور زر اختیار کیا جاسکتا ہے۔ اس کی تائید امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے ’مجموع الفتاوی‘ میں ان الفاظ سے بھی ہوتی ہے: أما الدرہم والدینار فما یعرف لہ حد طبعي ولا شرعي بل مرجعہ إلی العادۃ والاصطلاح وذلک لأنہ في الأصل لایتعلق المقصود بہ بل الغرض أن یکون معیارًا لما یتعاملون بہ والدراہم والدنانیر لا تقصد لنفسہا بل ہی وسیلۃ إلی التعامل بہا ولہٰذا کانت أثمانا بخلاف سائر
Flag Counter