Maktaba Wahhabi

86 - 111
مکروہ سمجھتے ہیں اور نہ ہی ان کو شراکت و مضاربت میں رأس المال بنانے کی اجازت دیتے ہیں ۔نیزان میں زکوٰۃبھی اسی صورت واجب قرار دیتے ہیں جب ان کو فروخت کر کے نفع کمانا مقصود ہو۔ جیساکہ الموسوعۃ الفقہیۃ میں ہے : الأصح عند الشافعیۃ والصحیح عند الحنابلۃ وہو قول الشیخین من الحنفیۃ وقول عند المالکیۃ: أنھا لیست أثمانا ربویۃ وأنھا کالعروض ’’امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ،امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ اورمالکی فقہا رحمۃ اللہ علیہ کاقول ،حنابلہ کا صحیح مسلک اور شافعیوں کاصحیح ترین نقطہ نظر یہی ہے کہ دھاتی سکوں میں ربا نہیں ہے بلکہ یہ سامان کی طرح ہیں ۔‘‘ (۳۲/۲۰۵) ذھب جمہور الفقہائ: أبو حنیفۃ وأبو یوسف والمالکیۃ علی المشہور و الشافعیۃ والحنابلۃ إلی أن المضاربۃ لا تصح بالفلوس لأن المضاربۃ عقد غرر جوز للحاجۃ فاختص بما یروج غالبًا وتسہل التجارۃ بہ وہو الأثمان (الموسوعۃ الفقہیۃ: ۳۸/۴۶،۴۷) ’’امام ابو حنیفہ ،ابویوسف ، مالکی(مشہور مسلک کے مطابق) شافعی اور حنبلی فقہا کا خیال ہے کہ دھاتی سکوں کے ذریعے مضاربہ درست نہیں کیونکہ مضاربہ عقد ِ غرر ہے جو ضرورت کی بنا پر جائز قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ یہ انہی چیزوں کے ساتھ خاص رہے گاجو اکثر مروّج ہوں اور ان کے ساتھ تجارت آسان ہو اوروہ نقدیاں ہیں ۔‘‘یعنی دھاتی سکے زر نہیں ۔ ’’فذھب الشافعیۃ و الحنابلۃ إلی أن الفلوس کالعروض فلا تجب الزکاۃ فیھا إلا إذا عرضت للتجارۃ‘‘ (ایضا:۳۲/۲۰۵) ’’شافعی اور حنبلی فقہا کی رائے میں دھاتی سکے سامان کی طرح ہیں ، چنانچہ ان میں زکوٰۃ اسی وقت واجب ہو گی جب یہ تجارت کی غرض سے ہوں ۔‘‘ ان فقہا کے نقطہ نظر کی تائیداس سے بھی ہوتی ہے کہ کسی حدیث میں دھاتی سکوں کی زکوٰۃکا تذ کرہ نہیں ملتا حالانکہ عہد ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ موجود تھے جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔ اگر یہ زر ہوتے تو سونے چاندی کی طرح ان کی زکوۃ کا بھی ذکر ہوتا۔ حضرت ابو ذرؓکی اس روایت کہ انہوں نے اپنی لونڈی سے کہا: ’’اس کے فلوس خرید لو۔‘‘ سے بھی یہ اشارہ نکلتا ہے کہ صحابہ کے ہاں دھاتی سکے سامان شمار ہوتے تھے۔
Flag Counter