الفاظ اور ان کی بناوٹ سے۔‘‘ (کاغذی کرنسی کی تاریخ :ارتقا اورشرعی حیثیت: ص۶۰) اس نقطہ نظر کے مطابق نوٹوں کے باہمی لین دین میں سود کے احکام بھی جاری ہوں گے اور جب یہ دو سو درہم چاندی یا بیس دینار سونے کی قیمت کے مساوی ہوں تو سال کے بعد ان پرزکوٰۃ بھی واجب ہو گی۔اسی طرح ان کے ذریعے بیع سلم بھی درست ہو گی۔ لیکن یہ رائے بھی کمزور ہے، کیونکہ اس کی بنیاد اس نظریہ پر ہے کہ نوٹ کی پشت پر سونا یاچاندی ہے حالانکہ امر واقع میں ایسا نہیں ۔ چنانچہ جسٹس علامہ عبداللہ بن سلیمان منیع اس کی خود تردید کرتے ہیں : ’’یہ نظریہ بھی حقیقت ِواقعہ کے مطابق نہ ہونے کی بنا پر قابل التفات نہیں ،کیونکہ اس کا دارومدار کرنسی نوٹوں کی اصل پر ہے اور اصل جیسا کہ ہم پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ وہ تو کرنسی نوٹوں کی پشت پر ہے نہیں ۔بلکہ اکثر ممالک کے نوٹ محض ساکھ کی بنا پر ،زبانی ضمانتوں اور حکومتوں کے جاری کردہ ہونے کی بنا پر رائج اور قابل قبول ہیں ، ورنہ ان کے پیچھے نہ تو سونا ہے نہ چاندی۔ بلکہ کچھ ایسے ہیں جنہیں پراپرٹی کی ضمانت حاصل ہے اور کچھ کو محض اقتدار کی ضمانت۔ لہٰذا یہ نظریہ خلافِ واقعہ ہونے کی بنا پر بہت کمزور ہے۔‘‘ ( ایضاً: ص۶۱) 4. نوٹ کی شرعی حیثیت کے متعلق چوتھی رائے یہ ہے کہ نوٹ دھاتی سکوں (فلوس ) کی طرح اصطلاحی زر ہیں جیسا کہ مولانا احمد رضا خاں بریلوی نے لکھا ہے : الرابع ما ہو سلعۃ بالأصل وثمن بالاصطلاح کالفلوس… إلی أن قال إذا علمت ھذا فالنوط ھو من القسم الرابع سلعۃ بأصلہ لأنہ قرطاس وثمن بالاصطلاح لأنہ یعامل بہ معاملۃ الأثمان (کفل الفقیہ الفاہم في أحکام قرطاس الدراہم: ص۳۳] ’’مال کی چوتھی قسم وہ ہے جو اصل میں تومال ہے، لیکن اصطلاحی لحاظ سے زر ہے جیسے دھاتی سکے ہیں …جب یہ معلوم ہوگیا تو، سنو نوٹ کا تعلق چوتھی قسم سے ہے جو حقیقت میں سامان ہے کیونکہ یہ کاغذ ہے اور اصطلاحی طور پر زر ہے، کیونکہ اس سے زر جیسا معاملہ کیاجاتاہے۔‘‘ لیکن یہ رائے بھی قوی معلوم نہیں ہوتی کیونکہ اہل علم کے ہاں دھاتی سکوں میں زر کی بجائے سامان کا پہلو غالب ہے، یہی وجہ ہے کہ جمہور فقہا نہ توکمی بیشی کے ساتھ ان کا تبادلہ |