Maktaba Wahhabi

84 - 111
’’نوٹ رسید نہ ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اگر یہ گم یا تلف ہو جائے تو اس کا مالک جاری کنندہ سے مطالبہ نہیں کر سکتا خواہ اس کے پاس ہزار گواہ ہوں اور اگر یہ حقیقی رسید ہوتا تو اس کو ضروریہ اختیار ہوتا، کیونکہ قرض مقروض کے ذمے ہوتا ہے، رسید تلف ہونے سے ضائع نہیں ہوتا۔‘‘ (الربا والمعاملات المصرفیۃ في نظر الشریعۃ الإسلامیۃ ص۳۲۱) 2. بعض نامور علما کے نزدیک نوٹ بذاتِ خود سامان(جنس) کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ مشہور مالکی فقیہ علیش مصری کی بھی یہی رائے ہے ۔علامہ محمد امین شنقیطی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں : وممن أفتٰی بأنہا کعروض التجارۃ العالم المشہور علیش المصري صاحب النوازل، وشرح مختصر خلیل، وتبعہ في فتواہ بذلک کثیر من متأخري علماء المالکیۃ (۱/۲۰۷) ’’جن حضرات نے ان کے سامانِ تجارت ہونے کا فتویٰ دیا ہے، ان میں ’نوازل ‘اور ’شرح مختصر خلیل ‘کے مصنف مشہور عالم علیش مصری بھی شامل ہیں ۔ بعد کے اکثرمالکی علماء نے بھی ان کے فتویٰ کی پیروی کی ہے۔‘‘ اس کی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ نوٹ قیمت بننے کی صلاحیت سے عاری ہے، کیونکہ یہ نہ سوناہے اور نہ چاندی، یہ تو سامان کی مانندہیں ۔ اس نظریہ کے مطابق ایک نوٹ کا دو نوٹوں کے ساتھ تبادلہ درست ہے۔ اسی طرح اس نظریہ کے مطابق نوٹوں میں زکوٰۃ اسی صورت واجب ہو گی جب ان کو فروخت کر کے نفع کمانا مقصود ہو ۔یعنی بذات خود ثمن کی بجائے نوٹ سامانِ تجارت قرار پاسکتاہے۔مزید برآں ا س قول کی بنیاد پر نوٹ سے مضاربہ اور بیع سلم بھی جائز نہیں بنتی، کیونکہ یہ قیمت نہیں ، سامان ہے۔چونکہ یہ نظریہ خطرناک نتائج کا حامل ہے، اس لئے عصر حاضر کے اہل علم اس کی تائید نہیں کرتے۔ 3. تیسری رائے یہ ہے کہ نوٹ سونے، چاندی کا متبادل ہیں ۔ اگراس کے پیچھے سونا ہو تو سونے اور اگر چاندی ہو توچاندی کامتبادل ہو گا۔ ڈاکٹر عبداللہ بن سلیمان منیع لکھتے ہیں : ’’ اس نظریہ کے قائلین کی دلیل یہ ہے کہ قیمت کے اعتبار سے یہ نوٹ اپنی اس اصل کی طرح ہے جس کے یہ بدل ہیں یعنی سونا اور چاندی، کیونکہ ان کا اصل چاندی یا سونا ان کی پشت پر ان کے زرِ ضمانت کے طور پر موجود ہے اور مقاصد ِشرعیہ کاتعلق تو اصل اور حقائق سے ہے نہ کہ
Flag Counter