Maktaba Wahhabi

83 - 111
اس رائے کے مطابق نوٹوں کے ساتھ سونا چاندی خریدنا جائز نہیں ، کیونکہ نوٹ کے ساتھ خریداری کا مطلب حقیقت میں اس سونے یا چاندی کے ساتھ خریداری ہے جو اس نوٹ کی پشت پرہے اور شرعی اعتبار سے سونے کی سونے یا چاندی کی سونے کے ساتھ بیع میں دونوں طرف سے موقع پر قبضہ شرط ہے جو یہاں مفقود ہے، کیونکہ خریدار نے سونے کے بدلے سونا نہیں دیا بلکہ اس کی رسید دی ہے ۔چنانچہ تفسیر’اضواء البیان ‘کے مصنف علامہ محمد امین شنقیطی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر میں رقم طراز ہیں : وأنہا سند بفضۃ وأن المبیع الفضۃ التي ہي سند بہا ومن قرأ المکتوب علیہا فَہِم صحۃ ذلک، وعلیہ فلا یجوز بیعہا بذہب ولا فضۃ ولو یدًا بید لعدم المناجزۃ بسبب غیبۃ الفضۃ المدفوع سندہا (۱/۲۰۷) ’’یہ نوٹ چاندی کی رسید ہیں اور بیچی گئی چیز وہ چاندی ہے جس کی یہ رسید ہیں ۔جو ان پر لکھی عبارت پڑھے گا وہ اس رائے کا درست ہونا سمجھ جائے گا۔اس رائے کے مطابق نوٹوں کی سونے چاندی کے بدلے بیع چاہے نقد ہوجائز نہیں ، کیونکہ جس چاندی کی رسید دی جاتی ہے وہ موجود نہ ہونے کی وجہ سے دونوں طرف سے موقع پر قبضہ کی شرط نہیں پائی جاتی۔‘‘ جس طرح اس نقطہ نظر کے مطابق نوٹوں کے بدلے سونا چاندی خریدنا جائز نہیں ، اسی طرح نوٹوں کے ساتھ مشارکہ یا بیع سلم درست نہیں ، کیونکہ اس نقطہ نظر کے مطابق نوٹ دَیْن (Debt)کی رسید ہے جبکہ شرعی اعتبار سے شراکت اور سلم میں سرمایہ نقد ہونا ضروری ہے۔ علاوہ ازیں یہ رائے اختیار کرکے ایک ملک کی کرنسی کا دوسرے ملک کی کرنسی سے تبادلہ (منی چینجر کا کاروبار) بھی نہیں ہوسکتا،کیونکہ یہ سونے کے بدلے سونے کی اُدھار اور کمی بیشی کاساتھ بیع ہو گی جو شرعاًدرست نہیں ۔ مگر یہ موقف درست نہیں کیونکہ اب نوٹ قرض کی رسید نہیں رہا جیسا کہ قبل ازیں بیان ہو ا ہے بلکہ اب یہ خود قانونی زر بن چکا ہے اور ہم پیچھے بیان کر آئے ہیں کہ حکومت کوئی بھی چیزبطورِ زر اختیار کر سکتی ہے۔اب نوٹ پر لکھی اس عبارت ’’حامل ہذا کو مطالبہ پر ادا کرے گا۔‘‘ کا مطلب صرف یہ ہے کہ حکومت اس کی ظاہری قیمت کی ذمہ دار ہے ۔ جسٹس علامہ عمر بن عبدالعزیز المترک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
Flag Counter