کر ان کے ڈلے بنا کر رکھ چھوڑتے ہیں اور کاغذ کے ٹکڑوں کے ذریعہ سے خرید وفروخت کرتے ہیں ۔ یہ کاغذ کاٹکڑاکفدست(ایک بالشت)کے برابر ہوتاہے اور بادشاہ کے مطبع میں اس پر مہر لگاتے ہیں ۔ ایسے پچیس کاغذوں کو بالشت کہتے ہیں ۔ ہمارے ملک میں یہ لفظ دینار کے معنی میں مستعمل ہوتاہے ۔ جب یہ کاغذ کثرت استعمال سے یا کسی اور طرح پھٹ جاتاہے تو وہ دارالضرب میں لے جاتے ہیں اور اس کے عوض نیا لے آتے ہیں ۔ یہ دارالضرب ایک بڑے درجہ کے امیر کی تحویل میں ہے۔ جب کوئی شخص بازار میں درہم یا دینار لے کر خرید وفروخت کرنے جاتاہے تو وہ درہم یا دینار نہیں چلتے، لیکن وہ درہم یا دینار کے عو ض یہ کاغذ لے سکتاہے اور ان کے عوض جو چیز چاہے خرید سکتا ہے۔‘‘ مشہورمؤرخ ابن مقریزی رحمۃ اللہ علیہ جب بغداد گئے تھے تواُنہوں نے بھی وہاں چین کے نوٹوں کا مشاہدہ کیا تھا۔ [الموسوعۃ الفقہیۃ:۴۱/۱۷۶،۱۷۸] چین کے بعد جاپان دوسرا ملک ہے جہاں چودھویں صدی عیسوی میں کرنسی نوٹ جاری ہوئے ۔یورپ میں پہلا باقاعدہ نوٹ ۱۶۶۱ء کو’سٹاک ہام بینک‘ آف سویڈن نے جاری کیا۔ انگلینڈ نے ۱۶۹۵ء میں کرنسی نوٹ جاری کئے۔ہندوستان میں پہلا نوٹ ۵/جنوری۱۸۲۵ء کو ’بنک آف کلکتہ‘ نے جاری کیاجس کی مالیت دس روپے تھی۔ آزادی کے بعد پاکستان میں کرنسی نوٹ یکم اکتوبر ۱۹۴۸ء کو جاری کئے گئے ۔ ابتداء میں تونوٹ کی پشت پر سو فیصد سونا ہوتا تھا،لیکن بعد میں مختلف معاشی وجوہ کے باعث سونے کی مقدار سے زائد نوٹ جاری کئے جانے لگے اورمختلف اَدوار میں یہ تناسب بتدریج کم ہوتا رہا یہاں تک کہ۱۹۷۱ء سے نوٹ کا سونے سے تعلق بالکل ختم ہو چکا ہے۔ کرنسی نوٹ کی شرعی حیثیت اب نوٹ کی شرعی حیثیت کیا ہے، اس بارے میں علما کی مختلف آرا ہیں : 1. پہلی رائے یہ ہے کہ نوٹ اصل میں اس بات کا دستاویزی ثبوت ہیں کہ حاملِ نوٹ نے اس نوٹ کے جاری کنندہ سے اتنا سونا یا چاندی وصول پانا ہے۔ اس کے حق میں سب سے مضبوط دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ نوٹ پر یہ ا لفاظ تحریر ہوتے ہیں : ’’حامل ہذا کو مطالبہ پر ادا کرے گا‘‘ |