Maktaba Wahhabi

81 - 111
’’شرعی معنوں میں ’مفلس‘ وہ شخص ہے جس کے قرضے اس کے پاس موجود مال سے زیادہ ہو جائیں ۔ اسے مفلس اس لئے کہا جاتا ہے کہ پہلے درہم و دینار کا مالک تھا لیکن اب فلوس پر آگیا ہے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہوتا ہے کہ یہ شخص صرف معمولی مال (فلوس) کا مالک رہ گیا ہے ۔ یا ایسے شخص کو مفلس اس بنا پر کہا جاتا ہے کہ اس کو فلوس جیسی معمولی چیز میں ہی تصرف کا حق ہو تا ہے، کیونکہ وہ فلوس کے ذریعے معمولی اشیا کا لین دین ہی کرتے تھے۔‘‘ (۵/ ۷۹) حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کی اس روایت میں بھی فُلُوس کا تذکرہ موجود ہے : فَأَمَرَہَا أَنْ تَشْتَرِیَ بِہِ فُلُوسًا (مسند احمد بن حنبل:۵/۱۵۶) ’’اُنہوں نے اپنی لونڈی سے کہا کہ اس کے بدلے ’فلوس ‘خرید لو۔‘‘ سونے چاندی کے سکے وجود میں آنے کے بعدبھی بعض علاقوں میں مخصوص اشیا زر کی حیثیت سے استعمال میں رہیں ۔ مشہور سیاح ابن بطوطہ جب سوڈان گیا تو اس وقت وہاں نمک کے ساتھ ہی لین دین ہوتاتھا،چنانچہ وہ لکھتا ہے : ’’سوڈان میں نمک بطورِ روپیہ کے چلتا ہے اور سونے چاندی کا کام دیتا ہے۔ اس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر لیتے ہیں اور انکے ذریعے خریدو فروخت ہوتی ۔‘‘ (سفر نامہ ابن بطوطہ ۲/۲۷۰) پھرمختلف اسباب کی بنا پر آہستہ آہستہ درہم دینار کا رواج ختم ہوتا چلا گیااور ان کی جگہ کرنسی نوٹوں نے لے لی۔ اب صورت حال یہ ہے کہ پوری دنیامیں کرنسی نوٹوں کا ہی دور دورہ ہے کیونکہ یہ آسان ترین ذریعۂ مبادلہ ہے ۔ نوٹ کب ایجاد ہوئے؟ کہا جاتاہے کہ اہلِ چین نے ۶۵۰ء سے ۸۰۰ء کے درمیان کاغذ کے ڈرافٹ بنانے شروع کئے تھے، انہی ڈرافٹ نے آگے چل کرکرنسی نوٹوں کی اشاعت کا تصور دیا۔ اسی لئے کاغذکی طرح کرنسی نوٹ بھی اہل چین کی ایجاد شمار ہوتے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ سب سے پہلے کرنسی نوٹ۹۱۰ء میں چین میں ایجاد ہوئے۔ (الأوراق النقدیۃ في الاقتصاد الإسلامي:ص ۱۱۵) ابن بطوطہ جو ۱۳۲۴ء سے۱۳۵۵ء کے درمیان چین کی سیاحت پر گیاتھا، چین کے نوٹوں کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتاہے : ’’اہل چین درہم یادینار کے ذریعہ سے خرید وفروخت نہیں کرتے بلکہ سونے اور چاندی کو پگھلا
Flag Counter