Maktaba Wahhabi

80 - 111
۵۶۰تا۵۴۶ ق م)نے متعارف کرایا۔ عہد ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی کرنسی بعثت ِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت عرب میں لین دین کا ذریعہ درہم و دینار تھے، لیکن گنتی کی بجائے وزن کا اعتبار کیا جاتا۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ درہم و دینار عرب کے مقامی سکے نہ تھے بلکہ ہمسایہ اقوام سے یہاں آتے تھے۔ ٭درہم ساسانی سکہ تھا جو عراق کے راستے عرب پہنچتا اور لوگ اس کی بنیاد پر باہم لین دین کرتے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کوبرقرار رکھا۔ یہ دراہم چونکہ مختلف وزن کے ہوتے تھے، اس لئے جب نصابِ زکو ۃ کے لئے درہم کا وزن مقررکرنے کی نوبت آئی تومسلمانوں نے ان میں سے متوسط کو معیار بنایا، چنانچہ اسی کو شرعی درہم سمجھا گیا۔ ایک قول کے مطابق یہ کام حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں جبکہ دوسرے قول کے مطابق بنو اُمیہ کے دور میں ہوا۔جو صورت بھی ہو، تاہم آخر کارجس شرعی درہم پراجماع ہوا وہ وہی ہے جو عبد الملک بن مروان کے دور میں بنایاگیا۔لیکن فقہا اور مؤرخین نے ثابت کیا ہے کہ یہ درہم اپنی اصلی حالت پر نہیں رہا تھا بلکہ مختلف شہروں میں اس کے وزن اور معیار میں کافی تبدیلی آتی رہی ہے۔جدید تحقیق کی روشنی میں اس درہم کا وزن۹۷۵ئ۲ گرام چاندی ہے۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ:۲۰/۲۴۹) ٭ اسی طرح دینار رومیوں کی کرنسی تھی جو براستہ شام یہاں آتی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو باقی رکھا حتی کہ خلفاے راشدین اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں بھی رومی دینار کو ہی کرنسی کی حیثیت حاصل رہی۔ جب مسند ِخلافت عبدالملک بن مروان کے پاس آئی تو اُنہوں نے زمانۂ جاہلیت کے دینار کے مطابق ایک دینار جاری کیا جس کو ’شرعی دینار‘کہاجاتا ہے، کیونکہ اس کا وزن اس دینار کے برابر تھا جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے برقرار رکھا تھا۔ (ایضاً) ٭ معمولی اشیا کے لین دین میں سونے چاندی کے علاوہ دوسری دھاتوں یعنی تانبے وغیرہ سے بنے سکے جنہیں فُلُوْس کہاجاتا ہے، بھی استعمال ہوتے ۔ جیسا کہ حدیث میں دیوالیہ شخص کے متعلق اَلْمُفْلِس کالفظ آتا ہے۔ شارحِ بخاری حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اپنی مایہ ناز تالیف ’فتح الباری‘ میں فرماتے ہیں :
Flag Counter