چمڑااوربعض میں چائے زر کے طور پر استعمال ہوتی تھی۔ چنانچہ معروف سعودی عالم جسٹس ڈاکٹر عبداللہ بن سلیمان منیع لکھتے ہیں : ’’اس نظام میں یہ طے پایا کہ ایسی اشیا کوزرِ بضاعتی قرار دیا جائے جن میں حسابی وحدت، قیمتوں کی یکسانیت، بحیثیت ِمال جمع کئے جانے کی استعداد اور قوتِ خرید موجود ہو۔ یہ اشیا نوعیت کے اعتبار سے مختلف تھیں مثلاً ساحلی علاقہ جات میں موتیوں کو بطورِ ثمن (زر)استعمال کیا گیا۔ سرد علاقوں میں پشم کو ثمن ٹھرایا گیا۔جبکہ معتدل موسم کے حامل ممالک میں آباد لوگوں کی خوشحال زندگی اور آسودہ حالی کی بنا پر خوبصورت اشیا (مثلاً قیمتی پتھروں کے نگینے ،عمدہ لباس، ہاتھی کے دانت اورمچھلیوں وغیرہ)کو کرنسی قرار دیا گیا۔ جاپان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں چاول کو بطورِ کرنسی استعمال کیا گیا جبکہ وسط ِایشیا میں چائے، وسطی افریقہ میں نمک کے ڈلوں اور شمالی یورپ میں پوستین کو کرنسی قرار دیاگیا۔‘‘ (کاغذی کرنسی کی تاریخ ؛ ارتقا اورشرعی حیثیت : ص ۱۰) رومی بادشاہ جولیس سیزر (دورِ حکومت ۶۰تا ۴۴ق م)کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کی فوج کو تنخواہ نمک کی شکل میں ملتی تھی۔ نمک کو لاطینی میں ’سیل‘کہتے ہیں ، اسی سے لفظ Salary نکلا ہے جس کامعنی ’تنخواہ‘ ہوتا ہے۔ چونکہ اشیا ضائع ہونے کا خطرہ بھی ہوتا ہے اور ان کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی بھی آسان نہیں ہوتی، اس لئے یہ نظام مستقل جاری نہ رہ سکا۔لوگوں نے اس کی جگہ سونے چاندی کا استعمال شروع کر دیا۔ابتدا میں سونے چاندی کے وزن کا ہی اعتبار ہوتا تھا۔سکوں کا رواج بعد میں شروع ہو ا۔سکے کب وجود میں آئے ؟اس کے متعلق وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے۔ البتہ قرآنِ مجید سے یہ پتہ چلتاہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے دور میں دراہم موجود تھے، کیونکہ ان کے بھائیوں نے اُنہیں دراہم کے عوض بیچاتھا : ﴿وَشَرَوْہُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ دَرَاہِمَ مَعْدُودَۃٍ وَکَانُوا فِیہِ مِنَ الزّٰہِدِینَ﴾(یوسف ۲۰) ’’اُنہوں نے اس کو انتہائی کم قیمت، جو گنتی کے چند درہم تھے، کے عوض فروخت کر دیا۔‘‘ واضح رہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کا دور ۱۹۱۰ تا ۱۸۰۰ق م ہے۔ اسی طرح کہتے ہیں کہ سونے کا سکہ سب سے پہلے لیڈیاکے بادشاہ کروسس (دورِ حکومت: |