الأموال فإن المقصود الانتفاع بہا نفسہا فلہٰذا کانت مقدرۃ بالأمور الطبعیۃ أو الشرعیۃ والوسیلۃ المحضۃ التي لا یتعلق بہا غرض لا بمادتہا ولا بصورتہا یحصل بہا المقصود کیف ما کانت (۱۹/۲۵۱،۲۵۲) ’’اس کا خلاصہ یہ ہے کہ درہم و دینار کی کوئی ذاتی اور شرعی تعریف نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق عرف اور اصطلاح سے ہے، کیونکہ درہم و دیناربذاتِ خود مقصود نہیں ہوتے بلکہ یہ باہمی لین دین کا ذریعہ ہیں ۔ اسی لئے یہ قیمت شمار ہوتے ہیں چونکہ باقی اَموال سے فائدہ اُٹھانا مقصود ہوتا ہے، اس لئے ان کی یہ حیثیت نہیں ہے۔ وہ ذریعہ جس کے مادہ اور صورت سے کوئی غرض وابستہ نہ ہو وہ جیسا بھی اس سے مقصود حاصل ہوجاتاہے ۔‘‘ چونکہ دلائل کے لحاظ سے یہ نقطہ نظر قوی ہے اور اس پر کئے گئے اعتراضات بھی زیادہ وزنی نہیں ، اس لئے دور حاضر کے علماء کی اکثریت ‘بیشترمفتیانِ کرام کے فتاوی اور اہم فقہی اداروں کی قرار دادیں اسی کے حق میں ہیں ۔ جسٹس علامہ عبداللہ بن سلیمان منیع کی بھی یہی رائے ہے۔ (کاغذی کرنسی کی تاریخ،ارتقائ،شرعی حیثیت: ص۹۰) سعودی کبار علماء کی مجلس نے بھی اس کو ترجیح دی ہے۔ (مجلۃ البحوث الاسلامیۃ:ع۱/ص۲۲۱) جسٹس علامہ عمر بن عبدالعزیز المترک رحمۃ اللہ علیہ بھی اسی قول کے حق میں ہیں ۔چنانچہ وہ مذکورہ بالا آرا اور ان کے دلائل کا تجزیہ کرنے کے بعد لکھتے ہیں : ’’کاغذی زر کے متعلق علما کی آرا اور ہر ایک کے نقطہ نظر کا تنقیدی جائزہ لینے سے ہمیں ان کا قول راجح معلوم ہوتا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ نوٹ مستقل کرنسی ہے اور سونے چاندی کی طرح ان میں بھی سود کے اَحکام جاری ہوتے ہیں ۔ ربا، سود اور تلف کی صورت میں ضمان کے مسائل میں ان پر مکمل طور پر سونے چاندی کے احکام کا اطلاق ہوتا ہے۔‘‘ (الربا والمعاملات المصرفیۃ في نظر الشریعۃ الإسلامیۃص۳۳۹] دیگر اقوال کی خرابیاں واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’دوسرے اقوال یا تو معاملات میں لوگوں کومشکل میں ڈال دیں گے یا لین دین کا دروازہ ہی بند کر دیں گے حالانکہ اس کے بغیر چارہ نہیں یا پھر سود کا دروازہ چوپٹ کھول دیں گے اور نقدین کی زکوٰۃ ضائع کرنے کے حیلوں کا دروازہ کھولیں گے۔‘‘ [حوالہ مذکورہ] |