سوال یہ ہے کہ کمپیوٹر پر تحریر ہو یا تصویر، دونوں روشنی کے چھوٹے چھوٹے نکات کا مجموعہ ہیں ۔ او ر دونوں کی پائیداری اورنا پائیداری یکساں ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ کمپیوٹر اور موبائل پر لکھی جانی والی تحریر تو تحریر ہے، مگر ٹی وی اور موبائل پربنائی جانے والی تصویر، تصویر نہیں ! ایک شخص اپنی بیوی کو بذریعہ’ایس ایم ایس‘ یا ’ای میل‘ طلاق بھیجتا ہے تو کوئی بھی فقیہ اس کی تحریر کو پانی یا ہوا پر لکھی جانے والی تحریر قرار دیکر غیر مؤثر نہیں کہتا ۔ اس مثال سے یہ نقطہ بھی خوب واضح ہوگیا کہ جس طرح پرانے زمانے میں کتابت کے لئے کاغذ، لکڑی،چمڑا، اور ہڈی وغیرہ ٹھوس اشیا استعمال ہو تی تھیں اور آج کمپیوٹر اور موبائل پر بھی تحریر لکھی جاتی ہے، اسی طرح زمانۂ قدیم میں کاغذ، دیوار یا کپڑے وغیر ہ ٹھوس اشیا پر تصویر بنائی جاتی تھی اور آج ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے تحت ٹی وی اور موبائل پر بھی بنائی جاتی ہے۔ خلاصۂ بحث یہ ہے کہ ڈیجیٹل سسٹم کے تحت بنائی گئی شبیہ بھی تصویر ہے اور اس پر تصویر کے احکام جاری ہوں گے ۔تفصیلی دلائل، ماہرین کی آرا اور کتب کے حوالہ جات کے لئے دار الافتا جامعہ علوم اسلامیہ ، بنوری ٹاؤن کراچی کا رسالہ(زیر طبع) ’ ڈیجیٹل سسٹم کے تحت بنائے گئے مناظر کا شرعی حکم‘ ملاحظہ کیجئے۔ مروجہ اسلامی بینکاری اور تصویرکے بارے میں ملک بھر کے جیدعلما کرام اور مفتیانِ عظام کا متفقہ فتوی گزشتہ چند سالوں سے اسلامی شرعی اصطلاحات کے حوالے سے رائج ہونے والی بینکاری کے معاملات کا قرآن وسنت کی روشنی میں ایک عرصے سے جائزہ لیا جارہا تھا اور ان بینکوں کے کاغذات فارم اور اُصولوں پر غوروخوض کے ساتھ ساتھ اکابر فقہا کی تحریروں سے بھی استفادہ کیا جاتا رہا تھا۔ بالآخر اس سلسلے میں حتمی فیصلے کے لئے ملک کے چاروں صوبوں کے اہل فتویٰ علماے کرام کا ایک اجلاس مورخہ۲۸/اگست۲۰۰۸ء مطابق۲۵/شعبان المعظم ۱۴۲۹ھ بروز جمعرات حضرت شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان دامت برکاتہم کی زیر صدارت جامعہ فاروقیہ کراچی میں |