Maktaba Wahhabi

40 - 127
دین سے خارج کر دیتے ہیں ۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل اورتقریر و تصویب کے اخبارِ آحاد جنہیں بالعموم ’حدیث‘ کہاجاتا ہے، ان کے بارے میں ہمارا نقطۂ نظر یہ ہے کہ ان سے دین میں کسی عقیدہ وعمل کا ہرگز کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔‘‘ (میزان : ص۱۰، طبع اپریل ۲۰۰۲ء، لاہور) اسی طرح وہ ایک اورمقام پر ’حدیث‘کے بارے میں لکھتے ہیں : ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل اورتقریر وتصویب کے اخبارِ آحاد جنہیں بالعموم ’حدیث‘ کہا جاتا ہے، ان کے بارے میں ہمارا نقطۂ نظر یہ ہے کہ ان سے جو علم حاصل ہوتا ہے وہ کبھی درجۂ یقین کو نہیں پہنچتا ، اس لیے دین میں ان سے کسی عقیدہ وعمل کااضافہ بھی نہیں ہوتا۔‘‘ ( اُصول ومبادی: ص۱۱، طبع فروری ۲۰۰۵ء، لاہور) سوال یہ ہے کہ غامدی صاحب کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ وہ اُمت کی معروف شرعی اصطلاحات کے معنی اپنے جی سے گھڑکر خلق خدا کوگمراہ کر یں ۔ دینی اصطلاحات کے معنی بدلنے کے بارے میں خود غامدی صاحب کے استاذ امام مولانا امین احسن اصلاحی اپنی تفسیر تدبر قرآن کے مقدمے میں لکھتے ہیں کہ ’’منکر ین حدیث کی یہ جسارت کہ وہ صوم وصلوٰۃ ، حج وزکوٰۃ اور عمرہ وقربانی کا مفہوم بھی اپنے جی سے بیان کرتے ہیں اور اُمت کے تواتر نے ان کی جو شکل ہم تک منتقل کی ہے، اس میں اپنی ہواے نفس کے مطابق ترمیم و تغیر کرنا چاہتے ہیں ، صریحاً خود قرآنِ مجید کے انکار کے مترادف ہے اس لیے کہ جس تواتر نے ہم تک قرآن منتقل کیا ہے، اسی تواتر نے ا ن کی اصطلاحات کی عملی صورتوں کو بھی ہم تک منتقل کیا ہے۔اگر وہ ان کو نہیں مانتے تو پھر خود قرآن کو ماننے کے لئے بھی کو ئی وجہ باقی نہیں رہ جاتی ۔‘‘(تدبر قرآن: ۱/۲۹، طبع ۱۹۸۳ء، لاہور) اب غامدی صاحب ذرا اپنے امام کے اس آئینے میں دیکھ کر بتائیں کہ کیا وہ وہی حرکت نہیں کر رہے جو منکر ینِ حدیث کیاکرتے ہیں ؟اگر ان کے امام کے فتویٰ کے مطابق منکرین حدیث اس قصور پر کہ وہ قرآنی اصطلاحات کے مفہوم میں ترمیم وتغیر کرتے ہیں ، منکرین قرآن ٹھہرتے ہیں تو کیاغامدی صاحب ’سنت‘ اور ’حدیث‘ کی اصطلاحات کے مفہوم میں تغیر وتبدل کرنے کے بعد ’منکر ِسنت‘ اور ’منکر ِحدیث‘ نہیں ٹھہرتے؟
Flag Counter