قرآنِ مجید میں کوئی فرق نہیں ہے۔ وہ جس طرح صحابہ کے اِجماع اورقولی تواتر سے ملاہے، یہ اسی طرح ان کے اجماع اور عملی تواتر سے ملی ہے اور قرآن ہی کی طرح ہر دور میں اُمت کے اجماع سے ثابت قرار پائی ہے۔‘‘ (میزان:ص۱۰، طبع دوم اپریل ۲۰۰۲ء، لاہور) 3. اسی بات کو وہ دوسری جگہ یوں لکھتے ہیں کہ ’’قرآن ہی کی طرح سنت کا ماخذ بھی اُمت کا اجماع ہے اور جس طرح وہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے اجماع اور قولی تواتر سے اُمت کوملاہے، اسی طرح یہ ان کے اجماع اور عملی تواتر سے ملی ہے۔‘‘ (میزان:ص ۶۸، طبع دوم اپریل ۲۰۰۲ء، لاہور) 4. وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’’ جس طرح قرآن خبر واحد سے ثابت نہیں ہوتا، اسی طرح سنت بھی اس سے ثابت نہیں ہوتی۔‘‘ (میزان : ص۶۷،طبع دوم اپریل۲۰۰۲ء، لاہور) 5. ایک اور جگہ اسی مضمون کو اس طرح لکھتے ہیں کہ ’’ثبوت کے اعتبار سے اس (سنت) میں اور قرآن میں کوئی فرق نہیں ہے۔ وہ جس طرح اُمت کے اجماع سے ثابت ہے، یہ بھی اسی طرح اُمت کے اجماع ہی سے اخذ کی جاتی ہے۔‘‘ (میزان: ص۷۰، طبع دوم اپریل ۲۰۰۲ء، لاہور) اس سے معلوم ہوا کہ غامدی صاحب کے نزدیک : ٭ سنت خبر واحد سے ثابت نہیں ہوتی۔ ٭ ثبوت کے اعتبار سے سنت اور قرآن میں کوئی فرق نہیں ۔ ٭ سنت صحابہ کے اجماع اور عملی تواتر سے ملی ہے اور یہ ہر دو ر میں اُمت کے اجماع سے ثابت قرار پائی ہے۔ اب ہم ان نکات کا عملی جائزہ لیں گے : 1. کیا سنت خبر واحد سے ثابت نہیں ہوتی؟ غامد ی صاحب کا دعویٰ ہے کہ سنت خبر واحد(اخبارِ احاد)سے ثابت نہیں ہوتی بلکہ اس کے ثبوت کے لئے اجماع اور تواتر شرط ہے۔ ہمار ا جواب یہ ہے کہ سنت خبر واحد سے ثابت ہوتی ہے اور اس کے لئے اجماع اور تواتر |