حجیت ِحدیث سید ابو الاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ ’حجیت ِحدیث‘ پر بعض شبہات کا جائزہ ذیل میں جسٹس ایس اے رحمن کے ایک خط پرمولانا کا تبصرہ شائع کیاجارہا ہے۔ یہ خط اس مراسلت کا ایک حصہ ہے جو ’ترجمان القرآن‘ کے صفحات میں موصوف اور پروفیسر عبدالحمید صدیقی کے درمیان ہوئی تھی۔ ادارہ جسٹس ایس اے رحمن اپنے مکتوب میں فرماتے ہیں : ’’جہاں تک قرآن حکیم کاتعلق ہے، تفسیر و تعبیر کا حق برقرار رکھتے ہوئے ہر شخص اس سے اتفاق کرے گا لیکن جیسا کہ آپ جانتے ہیں … سنت کامسئلہ مختلف فیہ ہے۔‘‘ ان الفاظ سے یہ گمان ہوتا ہے کہ موصوف کے نزدیک قرآن تو اسلامی احکام معلوم کرنے کے لئے ضرور مرجع و سند ہے مگر وہ سنت کویہ حیثیت دینے میں اس بنا پر متامل ہیں کہ اس کا مسئلہ مختلف فیہ ہے۔ اب یہ بات ان کے بیان سے واضح نہیں ہوتی کہ اس مسئلے میں کیا چیز مختلف فیہ ہے؟ کیا سنت کا ماخذ ِقانون ہونا مسلمانوں میں اختلافی مسئلہ ہے؟ اگر ان کا مطلب یہ ہے کہ بجائے خود سنت (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و عمل اور امرونہی) کا ماخذ ِقانون اور مرجع ِاحکام ہونا ہی مختلف فیہ ہے تو میں عرض کروں گا کہ یہ ایک خلافِ واقعہ بات ہے۔ جس روز سے اُمت ِمسلمہ وجود میں آئی ہے، اس وقت سے آج تک یہ بات اہل اسلام میں کبھی مختلف فیہ نہیں رہی ہے۔ تمام اُمت نے ہمیشہ اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مؤمنوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مطاع اور متبوع ہیں ، ان کے حکم کی اطاعت اور ان کے امرونہی کا اتباع ہر مسلمان پر واجب ہے۔ جس طریقے پر چلنے کی انہوں نے اپنے قول و عمل اور تقریر سے تعلیم دی ہے، اس کی پیروی پر ہم مامور ہیں اور زندگی کے جس معاملے کا بھی انہوں نے فیصلہ کردیا ہے، اس میں کوئی دوسرا فیصلہ کرلینے کے ہم مجاز نہیں ہیں ۔ ہمیں نہیں معلوم کہ تاریخ اسلام کی گذشتہ ۱۴صدیوں میں کس نے اور کب اس سے اختلاف کیا ہے۔ نرالی اُپچ نکالنے والے کچھ منفرد اور شاذ قسم کے خبطی تو دنیا میں ہمیشہ ہر گروہ میں پائے جاتے رہے ہیں ۔ اس طرح کے افراد نے کبھی مسلماتِ قوم کے خلاف کوئی بات کردی ہو تو اس کی بنا پر یہ کہہ دینا صحیح نہیں ہے کہ ایک عالم گیر مسلمہ مختلف فیہ ہوگیا ہے، اس لئے وہ مسلمہ نہیں رہا۔ اس طرح تو خبطیوں کی تاخت سے قرآن بھی نہیں بچا ہے۔ کہنے والے تحریف ِقرآن تک کا دعویٰ کر بیٹھے ہیں ۔ اب کیا |