Maktaba Wahhabi

287 - 247
تدوین ِحدیث پروفیسرعلی احمد چوہدری ( حفاظت ِحدیث میں حفظ کی اہمیت حفظ کی اہمیت اللہ تعالیٰ نے یوں تو انسان کو بے شمار نعمتیں عطا کی ہیں لیکن قوتِ حافظہ ان میں اہم ترین نعمت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اس خاص نعمت سے انسان مشاہدات و تجربات اور حالات و واقعات کو اپنے ذہن میں محفوظ رکھتا ہے اور ضرورت کے وقت انہیں مستحضر کرکے کام میں لاتا ہے۔ انسان کا قدیم ترین اور ابتدائی طریق حفاظت ’حفظ‘ تھا۔ تدریجاً وہ فن کتابت سے آشنا ہوا اور تہذیبوں کے ارتقا کے ساتھ کتابت کو فروغ ہوا۔ تہذیبوں کے اس نشیب و فراز کے ہر دور میں حافظہ کی حیثیت مسلم رہی۔ اہل عرب قبل از بعثت ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہزاروں برس سے اپنا کام تحریر و کتابت کے بجائے حافظہ سے چلانے کے خوگر تھے۔ ان کے تاجر لاکھوں روپے کا لین دین کرتے تھے اور کوئی لکھی پڑھی دستاویز نہ ہوتی تھی۔ پائی پائی کا حساب اور سینکڑوں گاہکوں کا تفصیلی حساب و تول زبان پر رکھتے تھے۔انکی قبائلی زندگی میں نسب اور خونی رشتوں کی بڑی اہمیت تھی، پشت ہا پشت سے نسب نامے ان کے حافظے میں محفوظ رہتے تھے۔ عرب بے پناہ قوت حافظہ کے مالک تھے۔ ان کے شعرا، خطبا اور اُدبا ہزاروں اشعار، ضرب الامثال اور واقعات کے حافظ تھے۔ شجر ہائے نسب کومحفوظ رکھنا ان کا معمول تھا بلکہ وہ تو گھوڑوں کے نسب نامے بھی یاد رکھتے تھے۔ ان کا سارا لٹریچر بھی کاغذ پرنہ تھا بلکہ لوحِ قلب پرلکھا ہوا تھا۔ وہ کاغذ کی تحریر پر اعتماد کرنے کی بجائے حافظے پر اعتماد کرنے کو زیادہ پسند کرتے تھے۔ انہیں اس پر فخر تھا اور ان کی نگاہ سے وہ شخص گر جاتا تھا جس سے بات پوچھی جائے اور وہ زبانی بتانے کی بجائے گھر سے کتاب لاکر اس کا جواب دے۔ ان کی یہ عادت اسلام کے بعد بھی تقریباً ایک صدی تک جاری رہی کہ وہ لکھنے کے باوجود یاد کرتے تھے اور تحریر پڑھ کر سنانے کی بجائے نوکِ زبان سے سنانا نہ صرف باعث ِعزت سمجھتے تھے بلکہ ان کے نزدیک آدمی کے علم پر اعتماد بھی اس طریقہ سے قائم رہتا تھا۔ موجودہ دور میں بھی مختلف اقوام میں ایسے بے شمار افراد پائے جاتے ہیں جن کے حافظوں کو بطورِ
Flag Counter