Maktaba Wahhabi

345 - 247
حجیت ِحدیث مولانا عبدالخالق محمد صادق مرکز دعوۃ الجالیات، کویت مقامِ حدیث اور بزمِ طلوعِ اسلام، کویت ’اصولِ حدیث‘ کی رو سے حدیث اور سنت دو مترادف اصطلاحات ہیں جن سے مراد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال اور تقریرات ہیں ، گویا حدیث یا سنت قرآنِ کریم کی عملی تفسیر اور بیان و تشریح کا نام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم کو نازل کرکے اس کے احکامات کی عملی تطبیق کے لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کو نمونہ قرار دیا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ﴿ لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾ (الاحزاب:۲۱) ’’بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ میں آپ کے لئے بہترین نمونہ اور اُسوہ ہے۔‘‘ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآنی احکامات کی تفصیل اور عملی تفسیر لوگوں کے سامنے پیش کی تاکہ اللہ تعالیٰ کی منشا کے مطابق قرآنی تعلیمات پر عمل کیا جاسکے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نسل انسانی ہی سے مبعوث کرنے کی غرض و غایت بھی یہی ہے کہ لوگوں کے لئے آپ کی اقتداء و اتباع ممکن ہوسکے۔ ارشادِ ربانی ہے:﴿ قُلْ لَّوْ کَانَ فِیْ الأَرْضِ مَلاَئِکَةٌ يَّمْشُوْنَ مُطْمَئِنِّيْنَ لَنَزَّلْنَا عَلَيْهِمْ مِّنَ السَّمَاءِ مَلَکًا رَّسُوْلاً﴾ (بنی اسرائیل:۹۵) ’’اے پیغمبر! فرما دیجئے کہ اگر زمین پر فرشتے چلتے پھرتے اور رہتے بستے ہوتے تو ہم بھی ان کے پاس کسی آسمانی فرشتے ہی کو رسول بنا کر بھیجتے۔‘‘ چنانچہ رسول یا نبی کا کام صرف لا کر کتاب تھما دینا یا پڑھ کر سنا دینا ہی نہیں بلکہ اس کی تفہیم اور عملی تطبیق پیش کرنا بھی اس کے فرائض میں شامل ہے اور اُسوہ کا مفہوم بھی یہی ہے۔ ’اُسوہ‘ کا مفہوم اُسوۃ یا اِسوۃ عربی زبان کا لفظ ہے اور أسَا سے مصدر ہے جس کا مطلب القدوۃ یعنی قابل اقتدا چیز ہے۔ عرب کہتے ہیں :’’فلان يأتسی بفلان أی يرضی لنفسه ما رضيهويقتدی به وکان فی مثل حاله‘‘کہ ’’فلاں نے فلاں کو اُسوہ بنایا یعنی اس نے اپنے متقدیٰ اور آئیڈیل کی پسند کو اپنی پسند سمجھا اور ہر حال میں اس کی نقل کرنے کی کوشش کی۔‘‘ اور’’ولی فی فلان أسوۃ أی قدوۃ‘‘ کہ ’’فلاں میرا اُسوہ یعنی آئیڈیل ہے۔‘‘ (لسان العرب : لفظ أسا ۱۴/۳۴ )
Flag Counter