Maktaba Wahhabi

304 - 247
فتنۂ انکارِ حدیث مولانا صفی الرحمن مبارکپوری مؤلف ’الرحیق المختوم‘ انکارِ حدیث … حق یا باطل؟ [ایک منکر ِحدیث کے شبہات کے جوابات] کیا قرآن میں سب کچھ ہے اور حدیث کی ضرورت نہیں ؟ انکارِ حدیث کے لئے سب سے اہم اور بنیادی نکتہ یہ تلاش کیا گیا ہے کہ قرآنِ مجید میں ہر مسئلہ کی تفصیل بیان کردی گئی ہے، اس لئے حدیث کی ضرورت نہیں ۔اس کے ثبوت میں قرآن مجید کے متعلق تبيانا لکل شيئ اور تفصيلا لکل شيئ والی آیات پیش کی جاتی ہیں ۔ جن کا مطلب توڑ مروڑ کر اور غلط ملط بیان کرکے یہ یقین دلایا جاتا ہے کہ قرآن میں ہر مسئلہ کی تفصیل موجود ہے۔ 1. منکرین حدیث اب ہمارا سوال سنیں ؛ قرآن میں مردہ، خون، سؤر کا گوشت اور غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا ہوا جانور حرام قرار دیا گیا ہے اور بہیمۃ الأنعام حلال کیا گیا ہے۔ بہیمۃ الأنعام کی تفسیر قرآن میں ان جانوروں سے کی گئی ہے: اونٹنی، اونٹ، گائے، بیل، بکری، بکرا، بھیڑ اور مینڈھا۔ لغت میں بھی بہیمۃ الأنعام کی فہرست میں یہی جانور بتائے گئے ہیں ۔ اب سوال یہ ہے کہ ان کے علاوہ دنیا کے بقیہ جانور حلال ہیں یا حرام؟ مثلاً کتا، بلی، گیڈر، بھیڑیا، چیتا، شیر، تیندوا، بندر، ریچھ، ہرن، چیتل، سانبھر، بارہ سنگھا، بھینسا، خرگوش، کوا، چیل، باز، شکرہ، کبوتر، مینا، فاختہ وغیرہ وغیرہ؛ یہ سارے جانور حلال ہیں یا حرام؟ یا ان میں سے کچھ حلال ہیں اور کچھ حرام؟ آپ جو جواب بھی دیں ، اس کا ثبوت قرآن سے پیش کریں ۔ آپ کی عقلی تک بندیاں نہیں مانی جائیں گی، یعنی آپ چونکہ دعویدار ہیں کہ ہر مسئلہ قرآن میں موجود ہے اس لئے ان جانوروں میں سے جس کو حلال مانیں ،اس کے حلال ہونے کا ثبوت قرآن سے دیں اور جس کو حرام مانیں ، اس کے حرام ہونے کا ثبوت قرآن سے دیں اور اگر آپ قرآن سے نہ دے سکیں (اور یقینا نہیں دے سکیں گے) تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن میں ہر مسئلہ بیان نہیں کیا گیا ہے اور حدیث کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ان جانوروں کے حلال و حرام ہونے کا قاعدہ حدیث میں بیان کردیا گیاہے جس سے فوراً معلوم ہوجاتا ہے کہ کون سا جانور حلال ہے اور کون سا حرام…!
Flag Counter