’’پیشاب سے فراغت کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاسلام کرنے والے کویہ جواب دینا کہ’’میں اس بات ناپسند کرتا ہوں کہ بغیر طہارت کے اللہ کاذکر کروں ۔‘‘یہ اس بات کی صریح دلیل ہے کہ جنبی کے لیے قرأت قرآن مکروہ ہے،اس لیے کہ حدیث میں یہ بات سلام کا جواب دینے کے ضمن میں آئی ہے جیسا کہ ابو داؤدوغیرہ میں صحیح سند سے مروی ہے۔پس قرآن تو سلام سے اولیٰ ہے جیسا کہ ظاہر ہےاور کراہت جوازکے منافی نہیں جیسا کہ معروف ہے،اس لیے اس حدیث صحیح کی وجہ سے کراہت والی رائے کااختیار کرنا ضروری ہے اور اگر اللہ نے چاہاتو یہ سب اقوال میں سے سب سے زیادہ انصاف پرمبنی رائے ہے۔‘‘ آج کل ہرجگہ مدرسۃ البنات(بچیوں کے تعلیمی مدارس)عام ہوگئے ہیں ،حفظ قرآن کے بھی دینی علوم کی تدریس کے بھی،مطلقاً ممانعت اور عدم جواز کے فتویٰ پر عمل سے ان مدارس میں پڑھنے والی طالبات اور پڑھانےوالی استانیوں کو جو مشکلات پیش آسکتی ہیں وہ محتاج وضاحت نہیں ۔یہ فقہی اصطلاح میں گویا عموم بلویٰ کی صورت پیدا ہوگئی ہے جس میں فقہاء جواز کا فتویٰ دیتے ہیں ۔ شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کی رائے: غالباً اسی لیے عصرحاضرکے بعض ان کبارعلماء نے بھی،جو عدم جواز کے قائل ہیں ،مدارس دینیہ میں زیر تعلیم طالبات اور ان میں پڑھانے والی استانیوں کے لیے جوازکا فتویٰ دیا ہے،چنانچہ شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں : ’’اس مسئلے میں علماء کا اختلاف جاننے کے بعد یہی بات زیادہ شایان شان ہے کہ یہ کہا جائے حائضہ کے لیےہمیشہ یہی ہے کہ وہ قرآن کریم زبان سے نہ پڑھے،سوائے ضرورت وحاجت کے۔جیسے کوئی استانی(معلم)ہے،اس کے لیے طالبات کو پڑھانا اس کی ضرورت ہے یا امتحان کے موقع پر خود |