ایک مجلس کی تین طلاقیں اور بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ فقہی جمود نے غیروں کو جگ ہنسائی کا موقع دےدیا!إنا لله وإنا إليه راجعون حافظ صلاح الدین یوسف[1] ایک مجلس کی تین طلاقوں کا مسئلہ اگرچہ صدیوں سے مختلف فیہ چلا آرہا ہےلیکن جب تک اسلامی یا مسلمان معاشروں میں شریعت پر عمل کا جذبہ توانا،مرد اور عورت کے باہمی حقوق کی پاسداری کا خیال فراواں اور ہمدردی وتعاون کا سکہ رواں رہا،لیکن اب صورتِ حال سالہا سال سے کافی مختلف ہے۔اب مسلمانوں کی اکثریت جہاں ایک طرف اسلامی تعلیمات سے نابلد ہے تو دوسری طرف صبروتحمل سے بھی عاری ہے۔یہی وجہ ہے کہ پہلے طلاق کی شرح برائے نام تھی تو اب اس کی شرح آسمانوں سے باتیں کرتی نظر آتی ہے۔پھر ستم بالائے ستم یہ فقہی جمود کہ عام لوگوں کی جہالت کی وجہ سے تو ہزاروں گھر اجڑ گئے اور اجڑ رہے ہیں او رپتہ نہیں کب تک اجڑتے رہیں اور پتہ نہیں کب تک اجڑتے رہیں گےلیکن عوامی اکثریت کے حامل حنفی علماء اس صورتحال پر سنجیدہ غوروفکر کرنے سے گریزاں ہیں ۔اجڑتے گھرانے اور بڑھتے مسائل آئے روز ان کی نظروں کے سامنے آتے ہیں لیکن وہ کوئی گنجائش دینے کو آمادہ نہیں ۔جس چیز کاحل شریعتِ اسلامیہ میں میں موجود ہے حتی کہ |