Maktaba Wahhabi

30 - 126
’’ میرے خاص بندوں پر تو(شیطان) ذرا بھی قابو نہ پاسکے گا اور آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے رب کا کارساز ہونا ہی کافی ہے۔‘‘ ٭ تعوّذ کے ذریعہ انسانی کمزوری وبے بسی کا اقرار کیا جاتا ہےکہ وہ خود اپنی حفاظت تک پر قادر نہیں بلکہ ہر لمحہ انسان اللہ تعالیٰ کا محتاج ہے۔فرمانِ الٰہی ہے: ﴿ يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَنتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَى اللَّـهِ وَاللّٰهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ﴾ ۔(الفاطر:15) ترجمہ:’’انسانو! تم سب کے سب اللہ کے محتاج ہو اوراللہ سب سے بے نیاز اور قابلِ حمد و ثنا ہے۔‘‘ ٭ تعوّذ کے ذریعہ شیطان جیسے بدترین دشمن جوانسان کو دیکھتا ہے مگر انسان اس خنّاس کو نہیں دیکھ سکتا سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کی جاتی ہے۔ ٭ تعوّذ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے یہ درخواست کی جاتی ہے کہ وہ ہر برائی کرنے والے کی برائی سے اُسےمحفوظ رکھے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدناابو ذر رضی اللہ عنہ سے فرمایا:’’اے ابو ذر ، اللہ کی مدد کے ذریعہ جناتی اور انسانی شیاطین سے اللہ کی پناہ میں رہو۔‘‘ابو ذر رضی اللہ عنہ نے پوچھا :کیا انسانوں میں بھی شیطان ہوتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا :’’جی ہاں ۔‘‘[1] ٭ لہٰذاتعوّذ کے ذریعہ جن امور میں انسان کو اللہ کی پناہ و حفاظت میسر ہوجائے تو پھر دنیا کی کوئی مخلوق اور چیز اُسے نقصان نہیں پہنچاسکتی۔ ٭ انسان کی زبان سے غیر ضروری باتیں نکل جاتی ہیں جس سے منہ روحانی طور پرآلودہ ہوجاتا ہے۔ تعوّذ کے ذریعہ یہ آلودگی دور ہوکر زبان تلاوت و نیک باتیں کرنے کے قابل ہوجاتی ہے۔ لہذا ہمیں ان مواقع پر بالخصوص اور ان علاوہ بالعموم طورپر تعوذ کا اہتمام کرتے رہنا چاہیے تاکہ ہم خود کوجن و انس کے شیاطین کے شر سے محفوظ رکھ سکیں ۔ وآخرُ دعوانا أنِ الحمدُ للّٰه ربِّ العالَمین
Flag Counter