Maktaba Wahhabi

95 - 126
جنابت کی مدت نہایت قلیل ہے۔حافظ ابن حزم اس مسلک کی بابت اور اس کی غیر معقولیت کوواضح کرتے ہیں : ’’اگر قرأ ت قرآن حائضہ کے لیے حرام ہےتو اس کی مدت حیض کی طوالت قرأت قرآن کو اس کے لیے حلال نہیں کرسکتی اور اگر اس کے لیے قرآن پڑھنا جائز ہے تو طول مدت سے استدلال کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔‘‘[1] پانچواں اور راجح مسلک: پانچویں رائے اس مسئلے میں یہ ہے کہ حیض وجنابت کی حالت میں قرآن پڑھنا کراہت تحریمی نہیں ،کراہت تنزیہی ہے۔جس کا مطلب یہ ہے کہ ان حالتوں میں قرآن پڑھنے اور چھونے سے اجتناب بہتر ہے۔تاہم پڑھ اورچھو لیا جائے تو جائز ہے۔یہ رائے دو لحاظ سے راجح ہے۔ اولاً:جمہور علماء جو مطلقاً ممانعت کے قائل ہیں ،ان کے پاس اپنے موقف کے اثبات کےلیے کوئی صحیح حدیث اور واضح نص نہیں ہے۔جن احادیث سےاستدلا ل کیا گیا ہےوہ سب ضعیف ہیں اور ایک آدھ حدیث جو صحیح ہے،محتمل المعنیٰ ہے،اس لیے وہ بھی نص صریح یا دلیل قاطع نہیں بن سکتی۔اسی طرح امام بخاری،امام ابن حزم اور دیگرائمہ،جو مطلقاً جواز کے قائل ہیں ،ان کے پاس بھی کوئی واضح دلیل نہیں ہے،ان کا استدلال صرف عمومی الفاظ پر مبنی ہے،اس لیے اس سےمطلقاً جواز کا مفہوم محل نظر ہے۔کیونکہ عموم کے باوجودحدیث میں ملتاہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قضائے حاجت سے فراغت کے بعد جب تک وضو نہیں کر لیا،سلام کا جواب دیناپسند نہیں فرمایا۔[2] جس سے معلوم ہوتا ہے کہ’’یذکر اللّٰه علی کل احیانہ‘‘ کے عموم کے باوجودنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعض حالتوں میں محتاط رویہ اختیار کیا ہے،اس سے یقیناً کراہت تنزیہی کا اثبات ہوتا ہے،کیوں کہ کراہت،جواز کے منافی نہیں ،چنانچہ شیخ البانی رحمہ اللہ ابوداؤد کی مذکورہ حدیث کے حوالے سے تحریر کرتے ہیں :
Flag Counter