حج کے مناسک ادا کرنے کا کہا،اس لیے کہ جنبی آدمی کے لیے یہ ممکن ہے فوری طور پر پاک ہوجائے،پس اس کے پاس ناپاک رہنے کےلیے کوئی عذر نہیں ہے۔بہ خلاف حائضہ عورت کے کہ اس کی ناپاکی باقی رہنے والی ہے،اس لیےاس کی موجود گی میں پاکیزگی حاصل کرنا ممکن ہی نہیں ۔اس لیے علماء نے یہ کہا ہے کہ کہ وہ پاک ہوئے بغیر عرفہ یا مزدلفہ اور منیٰ میں وقوف کرے،اگرچہ وقوف کے لیے طہارت شرط نہیں ہے لیکن مقصود یہ ہے کہ شارع نے حائضہ کو تو بطور وجوب یا بطور استحباب اللہ کا ذکر اور اس سے دعا کرنے کا حکم دیا ہے اور جنبی کے لیے ان چیزوں کو مکروہ جانا ہے۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ حائضہ کو جو رخصتیں دی گئی ہیں وہ جنبی آدمی کو نہیں دی گئیں اور اس کی وجہ صرف(وہ قدرتی)عذر ہے(جو عورت کو حاصل ہے)اگرچہ اس کا حدث زیادہ غلیظ ہےاسی طرح قرآن پڑھنےکا مسئلہ ہے،شارع نے حائضہ عورت کو اس سے منع نہیں کیا ہے۔اگر کہا جائے کہ شارع نےجنبی کو منع کیا ہے(تو اس کی وجہ یہ ہےکہ)کہ جنبی کے لیے تو یہ ممکن ہے کہ وہ پاک ہوجائے اور قرآن پڑھ لے،بخلاف حائضہ عورت کے کہ وہ کئی دن تک اسی حالت پرقائم رہتی ہے،پس وہ(اتنے دنو ں تک ،اگر قرآن اس کے لیے پڑھنا ممنوع ہو)قرآن پڑھنے سے محروم رہے گی اوراس کے لیے ایسی عبادت سے محرومی ہے جس کی وہ ضرورت مند ہےاور وہ طہارت بھی حاصل کرنے سے عاجز ہےاور قرأت قرآن نماز کی طرح نہیں ہے،اس لیے کہ نماز کے لیے تو شرط ہے کہ حدث اکبر(جنابت وحیض)ا ور حدث اصغر(عدم وضو)سےپاک ہو۔اور قرآن کا پڑھنا حدث اصغر(عدم وضو)کے ساتھ جائز ہے۔یہ نص سے بھی ثابت ہے اور اس پر ائمہ کا اتفاق بھی ہے۔ علاوہ ازیں نماز کے لیے استقبال قبلہ،لباس اور نجاست سے پاکیزگی بھی ضروری ہے،جبکہ قرأت قرآن کے لیے ان میں سے کوئی چیز بھی ضروری نہیں ،بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی گود میں اپنا |