ہیں ۔اس اعتبار سے ان کے نزدیک بھی منع کی کوئی صحیح دلیل نہیں ہے۔(تفصیل کے لیےملاحظہ ہو:المحلی،مسئلہ نمبر:116) 7.شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’جنبی او رحائضہ کا قرآن پڑھنا،اس کے بارے میں علماء کے دو قول ہیں :ایک رائے ہےکہ دونوں کے لیے جائز ہے اور یہ امام ابوحنیفہ کا مذہب ہےاور امام شافعی اور اما م احمد کا بھی مشہور قول یہی ہے۔دوسری رائے ہے کہ جنبی کے لیے جائز نہیں ہے اورحائضہ کے لیے جائز ہے۔اس کے لیے تو مطلقاً(یعنی ہر وقت)جائز ہے یااس وقت جب اسے بھولنے کا خوف ہو اور یہ امام مالک کا مذہب ہے اور امام احمد وغیرہ کا مذہب ایک قول کے مطابق یہی ہے،اس لیے حائضہ عورت کے قرآن پڑھنے کی بابت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کوئی چیز ثابت نہیں ،سوائے اس حدیث کے جو اسماعیل بن عیاش سے موسیٰ بن عقبہ عن نافع عن ابن عمر کی سند سے مروی ہے کہ’’حائضہ اور جنبی قرآن سے کچھ نہ پڑھے۔‘‘اسے ابوداؤدوغیرہ نے روایت کیا ہےاور یہ حدیث،حدیث کی معرفت رکھنے والوں کے نزدیک بالاتفاق ضعیف ہے اور اسماعیل بن عیاش اہل حجاز سے جو روایت کرتا ہے،وہ سب احادیث ضعیف ہیں ،بخلاف ان روایات کے جو اہل شام سے بیان کرتا ہےاور یہ روایت ثقہ راویوں میں سے کوئی بھی نافع سے روایت نہیں کرتااور یہ معلوم ہے کہ عورتیں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانےمیں حائضہ ہوتی تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو قرأت قرآن سے منع نہیں کیا جیسے آپ نے انہیں ذکر و دعا سے منع نہیں کیا۔بلکہ حائضہ عورتوں کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےحکم دیا کہ وہ عید کے دن گھروں سے نکلیں اور مسلمانوں کی تکبیرات کے ساتھ وہ بھی تکبیرات پڑھیں اور(اسی طرح) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حائضہ کو حکم دیا کہ وہ بیت اللہ کے طواف کے علاوہ حج کے سارے مناسک ادا کرے،وہ حالت حیض میں ہوتے ہوئے تلبیہ کہے،اسی طرح مزدلفہ اور منیٰ ا ور ان کے علاوہ دیگر مشاعر میں (حج کے افعال)سرانجام دے۔ اس کے برعکس نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنبی کو حکم نہیں دیا کہ وہ عید میں حاضر ہواوریہ کہ وہ نماز پڑھے،نہ اسے |